ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم گیلانی کو داد دینی چاہیے کہ ج
یہ فیصلہ وزیراعظم گیلانی اور منظور وٹو کی خصوصی توجہ اور مہربانی کی بدولت ہوا ہے اور مزے کی بات ہے کہ گیلانی اور وٹو نے یہ سارا کام اتنی صفائی سے کیا کہ کابینہ کے دوسرے وزیروں کو خبر تک نہیں ہونے دی کہ ان سے کیسا فیصلہ کرایا جار رہا ہے اور سب نے مل کر اس پر دستخط کر دیے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گیلانی، وٹو نے یہ مہربانی بلاوجہ نہیں کی ہوگی اور اس کام میں بھی دونوں نے ان کمپنیوں پر خصوصی مہربانی کی ہے اور اس کے بدلے میں ان پر بھی مہربانیوں کی بارش کیے جانے کا امکان ہے ۔ جس طرح کی سمری کابینہ کے سامنے پیش کی گئی اور جس طرح وزیروں کو ’بیوقوف‘ بنایا گیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس پورے فیصلے کو گیلانی کی حمایت حاصل تھی کیونکہ ان کی اجازت کے بغیر اڑھائی ارب روپے ان کمپنیوں کے بخشے نہیں جا سکتے تھے خصوصاً جب گیلانی اور وٹو کو پتہ تھا کہ یہ کمپنیاں پہلے ہی اڑھائی ارب کیش پاکستانی صارفین سے ٹیکس کے نام پر وصول کر چکی ہیں اور اب ان کی ایک ناں یا ہاں سے ان کمپنیوں کو اڑھائی ارب روپے کا نقد فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔ لہذا ذرائع کہتے ہیں کہ گیلانی اور ان کے ساتھی وٹو نے اس صورت حال سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے اور اس دوران کس نے کیا کھویا یا پایا، یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔
ذرائع کا کہنا اس سے پہلے ماضٰی میں بھی دو دفعہ یہ معاملہ گیلانی کابینہ کے سامنے آیا لیکن ہر دفعہ اسے مستر د کرد یا گیا تاہم کابینہ کی پچھلی میٹنگ میں گیلانی نے اس پر اپنے وزیروں کی ایک کمیٹی بنائی کہ وہ اس معاملے کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ اور سفارشات کابینہ کے سامنے پیش کرے۔ اس کمیٹی میں دوسروں کے علاوہ منظور وٹو اور رحمن ملک بھی شامل تھے۔ منظور وٹو کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ ہر قیمت پر ان کمپنیوں کے حق میں فیصلہ کرائیں۔
اس لیے اس کمیٹی کی میٹنگ اس دن رکھی گئی جس دن رحمن ملک بھی نہیں تھے جبکہ کابینہ کے ایک اور وزیر اسلام آباد سے باہر تھے۔ یوں اپنی مرضی سے اس کمیٹی نے یہ سفارش کر دی کہ ان کمپنیوں کے ذمہ اڑھائی ارب روپے سے زائد رقم نہ وصول کی جائے جو کہ وہ پہلے ہی عوام سے ٹیکس کے نام پر اکٹھا کر چکے ہیں۔ یوں کابینہ کی پچھلی میٹنگ میں ایک مبہم سی سمری بنا کر پیش کی گئی جس میں کہیں کوئی ذکر نہیں تھا کہ کس کمپنی نے کیا پیسے حکومت کو جمع کرانے تھے اور اس فیصلے سے کل کتنی رقم کا ملک کو نقصان ہو گا اور یوں خاموشی سے یہ فیصلہ کرا لیا گیا کہ وہ یہ پیسے ان کمپنیوں سے مت وصو ل کریں جو کہ وہ پہلے ہی لوگوں سے وصول کر چکے ہیں لیکن حکومت کو دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کابینہ کو یہ تاثر دیا گیا جیسے یہ معمولی سی مسئلہ ہے اور محض ایک فیصلے کو دو ہزار نو کی بجائے دو ہزار چار سے نافذعمل کرنا تھا۔ کسی وزیر کو علم نہ تھا کہ اس ایک تاریخ کو بدلنے کا مطلب ٹیلی کام کمپنیوں کو اڑھائی ارب روپے کا نقد فائدہ دینا تھا۔
ٹاپ سٹوری آن لائن کو ملنے والی دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ کل رقم جو دس طاقتور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں نے بڑی شدید لابنگ کر کے یہ سمری وفاقی کابینہ میں بھجوائی تھی کہ اُن کے ذمہ واجب الادا ریسرچ اور ڈویلپمنٹ فنڈ کی مد میں کنٹری بیوشن جسے 2009ء میں ایک فیصد سے کم کر کے 0.5فیصد کیا گیا تھا، کا اطلاق 2009ء کے بجائے 2004ء سے کیا جائے اور اس مد میں اُنہیں بیٹھے بٹھائے 2 ارب 33 کروڑ کا نقد فائدہ ہوا ہے۔ اس سکینڈل کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا قلمدان کسی اور کے پاس نہیں بلکہ اس وقت وزیراعظم گیلانی کے پاس ہے۔
ٹاپ سٹوری آن لائن کے پاس موجود سرکاری دستاویزات 2003ء میں اُس وقت کی وفاقی کابینہ نے ٹیلی کمیونیکیشن سنٹر میں ایک ڈی ریگولیشن پالیسی کی منظوری دی تھی جس کے تحت تمام فکسڈ لائن لائسنس رکھنے والی کمپنیوں کو اپنی کل آمدن کا ایک فیصد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فنڈ میں جمع کرانا تھا جو وہ عوام سے اکٹھا کر رہے تھے۔ 28 جون 2004ء کو کابینہ نے ٹیلی فون موبائل کمپنیوں کے لئے بھی یہ ضروری قرار دے دیا کہ وہ 0.5% کے حساب سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فنڈ میں پیسے جمع کرائیں گے جبکہ فکسڈ لائن آپریٹر کے لئے ایک فیصد برقرار رہا۔ یوں ٹیلی کام سروس سیکٹر میں دو مختلف ریٹس متعارف کرانے سے خرابی پیدا ہوئی۔ اس خرابی کو دور کرنے کے لئے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کیبنٹ کو ایک سمری بھیجی جس میں یہ کہا گیا کہ فکسڈ لائن اور موبائل فون آپریٹرز کے لئے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ فنڈ 0.5% کئے جائیں۔ جس پر کابینہ نے 18 جون 2009ء کو اس سمری پر غور کیا اور ایک کابینہ کی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا کہ وہ اس پورے معاملے کا جائزہ لے کر کابینہ کو اپنی ایک مکمل رپورٹ پیش کرے۔
کابینہ کی اس ذیلی کمیٹی نے کئی میٹنگز کیں اور اپنی سفارشات کو 18 نومبر 2009ء کو ہونے والی کابینہ کی میٹنگ میں پیش کیں۔ کابینہ نے فوری طور پر ریسرچ اور ڈویلپمنٹ فنڈ کو ایک فیصد سے 0.5 فیصد کرنے کی منظوری دے دی۔ کابینہ سے منظوری لینے کے بعد وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ایک پالیسی کی شکل میں ہدایات دیں اور کہا گیا کہ اس فیصلے کو 18 نومبر 2009ء سے نافذ العمل سمجھا جائے۔
تاہم فکسڈ لائن آپریٹرز نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ کابینہ کا ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فنڈ میں کمی کا فیصلہ 18 نومبر 2009ء سے نہیں بلکہ جنوری 2004ء سے کیا جائے کیونکہ اُن کے خیال میں اُن کے ساتھ دوہرا معیار جنوری 2004ء میں ہی شروع ہوا تھا اور ان سے بھی 0.5 ٹیکس وصول کیا جائے حالانکہ وہ عوام سے ایک فیصد پھچلے کئی سالوں سے وصول کر چکے تھے۔ اس پر یہ معاملہ وزارت قانون کو بھیجا گیا کہ وہ اس پر اپنی قانونی رائے دیں۔ وزارت قانون نے اپنی رائے میں کہا کہ اس فیصلے کا اطلاق 2004ء سے ہو گا۔ تاہم وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس بات سے اختلاف کیا کیونکہ اُس کا خیال تھا کہ کابینہ نے 18 نومبر 2009ء کو بڑا واضح طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس فیصلے پر عمل اسی تاریخ سے ہو گا جس تاریخ کو یہ منظور کیا گیا تھا لہٰذا مستقبل میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فنڈ 0.5 فیصد لیا جائے گا اور اس کا اطلاق 2004ء سے نہیں ہو گا۔ تاہم اب اس فیصلہ کا اطلاق دو ہزار چار سے کیا گیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق کابینہ نے جنوری 2004ء سے ایک فیصد سے کم کر کے 0.5 فیصد ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کر کے پی ٹی سی ایل ( ایتصلات گروپ) کو ایک ارب 85کروڑ کا فائدہ، وطین 10 کروڑ، لنک ڈریکٹ کو 8 کروڑ 36 لاکھ، این ٹی سی 7 کروڑ 61 لاکھ، سی ایم پاک 6 کروڑ 30 لاکھ، ٹیلی کارڈ 6 کروڑ 98 لاکھ، کال میٹ 2 کروڑ 54 لاکھ، براق 13 کروڑ 36 لاکھ، ورلڈکال 11 کروڑ 19 لاکھ اور وائز کام کو 10 کروڑ کا فائدہ دیا ہے۔
Reported by…Top Stories online