اس قدر کثیر تعداد میں ایس ایم ایس کرنے کی بہت سی وجوہ ہیں۔۔جِنہیں سمجھنے سے پہلے ذرا موجودہ دور کے ایک نو عمر لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہونے والے چند ’ایس ایم ایس‘ کے تبادلوں کو ملاخطہ کیجئے:
لڑکا: ”ہائے“
لڑکی:”ہیلو“
لڑکا:” کہاں پر ہو؟“
لڑکی: ”میں اپنے پاپا کی بی ایم ڈبلیو کار میں کلب جا رہی ہوں۔ ابھی ڈرائیور مجھے کلب چھوڑ دے گا، اس کے بعد، مال میں شاپنگ کے لئے جاوٴں گی۔ تب تمہیں کال کروں گی۔ تم کہاں پر ہو؟“
لڑکا: ”11 سی کی بس میں۔ تمھاری سیٹ کے پیچھے ہی بیٹھا ہوں۔۔۔تم کرایہ مت دینا۔۔ میں نے دے دیا ہے۔“
اِس لطیفے کو بے موقع سنانے کی واحد وجہ بہت آسان انداز میں اس پہلو پر زور دینا ہے کہ پاکستانیوں نے جولائی 2012ء سے جون 2013ء کی ایک سالہ مدت کے دوران کِن وجوہات پر 318 بلین، یا آسان زبان میں، کہیں تو 8کروڑ 65لاکھ ’ایس ایم ایس‘ کئے۔
سیدھی سی بات ہے کہ اگر ایک لڑکا اور لڑکی آگے پیچھے بیٹھ کر بھی باتیں ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے کریں تو پھر بھلا ’ایس ایم ایس‘ کی تعداد کیوں کر زیادہ نہیں ہوگی۔
ایس ایم ایس کرنے والوں کی’ دلچسپ دنیا‘
لطیفے سے جڑا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک عام مشاہدے کے مطابق، پاکستان میں سب سے زیادہ لطیفے ہی ایک دوسرے کو ’ایس ایم ایس‘ کئے جاتے ہیں۔ پھر ان لطیفوں کی اقسام بھی مختلف ہیں۔ کچھ نوجوان ’بالغ النظر‘ لطیفوں کا استعمال بھی عام کئے ہوئے ہیں۔ جس کے سبب، ایک کے جواب میں ایک لطیفہ اور ایک ’ایس ایم ایس‘ کے جواب میں دوسرا ’ایس ایم ایس‘ بھیجا جاتا ہے۔
عید الفطر ہو یا عید الاضحی، رمضان کا چاند نظر آئے یا عید کا۔۔ تہواروں کے موقع پر خاص طور سے، ایک ایک شخص کے پاس سو، سو ’ایس ایم ایس‘ آجاتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ان کے باقاعدہ ’عادی‘ بھی ہوگئے ہیں۔ وہ ہر روز انگنت پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں۔’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے جب زیرِ نظر رپورٹ کی تیاری کے لئے مشاہدہ اور تحقیق شروع کی تو اسے کئی دلچسپ خواتین اور مرد ایسے ملے جنہوں نے ہر روز ڈھیروں ڈھیر ’ایس ایم ایس‘ کرنا اپنا ’شغلہ‘ بنا لیا ہے۔
نیو کراچی کی رہائشی، عطیہ نامی ایک خاتون نے بتایا: ’ہم عورتوں کے پاس اس مہنگائی کے دور میں تفریح کا کوئی اور ذریعہ تو ہے نہیں۔ بچے بڑے ہوگئے، وہ اپنی مرضی کے ٹی وی پروگرام دیکھتے ہیں۔ اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں۔۔ اس لئے ایس ایم ایس ہی کرلیتے ہیں۔‘
ایک سوال پر، عطیہ کا مزید کہنا تھا : ’آج کل ہر موبائل فون کمپنی سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں مفت ’ایس ایم ایس‘ بھیجنے کی ’سہولت‘ دیتی ہے۔ پھر اور کیا چاہئے‘۔
عطیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام کے وقت گھر کے تمام کاموں سے فرصت پاکر اپنے تمام عزیز و اقارب، سہلیوں اور پڑوس میں رہنے والی ہم عمر عورتوں کو ’ایس ایم ایس‘ کرنا انہوں نے اپنی پختہ عادت بنالی ہے۔
’ہائی ٹیک‘ کے اِس دور میں، ٹیکنالوجی کے جادو پر منٹوں سیکنڈوں میں پیغام دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچانا کوئی بڑی بات نہیں رہی۔ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں گولیمار کے رہائشی ندیم سبطین۔ اُن کا کہنا ہے کہ فون کال لاکھ سستی سہی مگر یہ انگنت ’مفت‘ ’ایس ایم ایس‘ سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی۔
سبطین نے بتایا کہ وہ اکثر اپنے گھر کے اوپری حصے میں رہنے والے بھائی کی فیملی کو ’ایس ایم ایس‘ کرکے ہی اپنا کام چلانے کے عادی ہیں۔ کسی دوست کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر اسے آواز دینے کے بجائے ’ایس ایم ایس‘ کرنا، دفتر سے چھٹی لینا، بیوی کو گھر دیر سے آنے کی اطلاع دینا، گھر والوں کا دفتر سے واپسی پر سامان لانے کا کہنا۔۔۔غرض کہ کون سا کام ہے جو ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے نہیں ہو رہا۔
پچھلے کچھ ماہ سے ’ایس ایم ایس‘ باقاعدہ ’ایڈوارٹائزنگ ایجنسی کی طرح پروموشن کا کام بھی دے رہا ہے۔ گھر میں ’فیومیگیشن‘ کرانے سے لیکر کپڑے ڈرائی کلین کرانے تک ہر کام انجام دینے والے ’ایس ایم ایس‘ کو اپنی پروموشن کا ’موٴثر‘ ذریعہ بنائے بیٹھے ہیں۔
ایک صاحب نے تو یہاں تک بتایا کہ ’کسی زمانے میں ’سیلف میڈی کیشن‘ بُری سمجھی جاتی ہوگی۔ مگر، اب تو دواؤں کے اشتہارات بھی ’ایس ایم ایس‘ ہو رہے ہیں۔خاص کر ایسی دواوٴں کے جو صرف مرد استعمال کرتے ہوں۔ اس طرح، رازداری بھی برقرار رہتی ہے اور بزنس کی تشہیر الگ ۔۔۔ دن بھر میں کم از کم 10 یا 15 میسج تو فون کمپنیوں کے اپنے ہوتے ہیں۔‘