مالیاتی پالیسی جاری، شرح سود میں ایک فیصد اضافہ، مہنگائی12فیصد رہنے کا امکان


مالیاتی پالیسی جاری، شرح سود میں ایک فیصد اضافہ، مہنگائی12فیصد رہنے کا امکان
بنیادی شرح سود13.25فیصد ہوگئی، آئندہ2ماہ میں بجلی، گیس کی قیمتوں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو سکتا، اضافے کی وجہ بجٹ میں ٹیکس اقدامات ہیں
کچھ عوامل کی وجہ سے افراط زر میں کمی کا بھی امکان ہے، رواں مالی سال کے آخری6ماہ میں مہنگائی میں کمی ہوگی، گورنر اسٹیٹ بینک
کراچی ( صباح نیوز) اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے نئی مانیٹری پالیسی جاری کرتے ہوئے شرح سود میں ایک فیصد اضافے کا اعلان کردیا ہے، ایک فیصد اضافے کے بعد شرح سود 13.25 فیصد ہوگئی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح11سے12فیصد رہنے کا امکان ہے۔ گزشتہ روز مرکزی بینک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے آئندہ2 ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ  شرح سود میں اضافہ مہنگائی کے پیش نظر کیا گیا جس کا اطلاق آج ( 17جولائی) سے ہوگا۔ شرح سود میں120پوائنٹس کا اضافہ ہونے سے چند عوامل ایسے ہیں جن کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا جبکہ کچھ عوامل کی وجہ سے افراط زر میں کمی کا بھی امکان ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہاکہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا گزشتہ اجلاس20مئی کو ہوا تھا جس کے بعد زر مبادلہ میں تبدیلی آئی، جس کے مہنگائی پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بجٹ میں گیس، بجلی اور دیگر کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر اقدامات کی وجہ سے آئندہ2ماہ میں قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافے کا امکان ہے۔ مہنگائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ کچھ عوامل ایسے ہیں جن سے متعلق ہم نے غور کیا ہے کہ شرح سود میں اضافہ نہیں کرنا چاہئے، ان میں طلب میں کمی آرہی ہے، دوسرا یہ کہ مالیاتی بجٹ میں ٹیکس وصولیوں اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے صارفین کی قوت خرید میں کمی آئے گی جس سے مہنگائی میں کمی آئے گی۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ان دونوں عوامل کی بنیاد پر رواں مالی سال مہنگائی میں11سے12فیصد تک اضافے کا امکان ہے، جس کی وجہ سے شرح سود میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے پہلی سہ ماہی میں مہنگائی کی شرح میں تھوڑا اضافہ ہوگا لیکن ہمارا تخمینہ ہے کہ دوسری سہ ماہی میں افراط زر کی شرح میں کمی آئے گی۔ رضا باقر نے کہا کہ جون 2020 سے شروع ہونے والے مالی سال میں مہنگائی کی شرح میں کافی حد تک کمی آئے گی۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے بیل آؤٹ معاہدے میں کہا تھا کہ سخت مانیٹری پالیسی سے مہنگائی کی شرح میں5سے7 فیصد کمی کا امکان ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے16جولائی2019ء کے اجلاس میں پالیسی ریٹ100بی پی ایس بڑھا کر13.25فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر آج (17جولائی2019ئ) سے عملدرآمد ہوگا۔ اس فیصلے میں20مئی2019ء کے زری پالیسی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے بعد سے شرح مبادلہ میں کمی کی بنا پر مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دبائو اور یوٹیلٹی کی قیمتوں میں حالیہ ردّوبدل کے ا یک بارکے اثر اور مالی سال20ء کے بجٹ کے دیگر اقدامات کے نتیجے میں مختصر مدت میں ہونے والی مہنگائی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اس فیصلے میں طلب کے مدہم پڑتے ہوئے اظہاریوں کی بنا پر مہنگائی کے دبائو  میں کمی کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ ان عوامل کے پیش نظر زری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ مالی سال2020ء میں اوسط مہنگائی12 فیصد رہے گی جو پہلے کی پیش گوئی سے زیادہ ہے۔ تاہم مالی سال 2021ء میں جب حالیہ اضافے کے بعض اسباب کا ایک بار کا اثر گھٹے گا تو مہنگائی میں خاصی کمی آنے کی توقع ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ شرح سود کے بارے میں اس فیصلے کے حوالے سے زری پالیسی کمیٹی اس نقطہ نظر کی حامل ہے کہ ماضی کے عدم توازن کی وجہ سے شرح سود اور شرح مبادلہ میں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ آگے چل کر زری پالیسی کمیٹی آئندہ کے معاشی حالات اور اعدادوشمار کے مطابق اقدامات کرنے کیلئے بھی تیار رہے گی۔ مہنگائی میں غیرمتوقع اضافے جو اس کے منظر نامے پر منفی اثر ڈالیں مزید معتدل سختی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف ملکی طلب میں توقع سے زیادہ نرمی اور مہنگائی میں کمی زری حالات میں نرمی کی بنیاد فراہم کریگی۔ اس فیصلے پر پہنچنے کیلئے زری پالیسی کمیٹی نے20مئی2019ء کو منعقدہ زری پالیسی کمیٹی اجلاس سے لے کر اب تک معاشی حالات ، حقیقی بیرونی اور مالیاتی شعبوں میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں زری حالات اور مہنگائی کے منظرنامے پر غورو خوض کیا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ   گزشتہ زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد تین کلیدی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، حکومت پاکستان نے مالی سال2020ء کا بجٹ منظور کیا ہے جس میں محاصل کو بڑھانے کے اقدامات کے ذریعے ٹیکس بیس کو وسیع کرتے ہوئے مالیاتی پائیداری کو معتبر انداز میں بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ توقع ہے کہ یوٹیلٹی کی قیمتوں اور بجٹ کے دیگر اقدامات سے مالی سال2020ء کی پہلی ششماہی میں قیمتوں میں ایک بار اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف حکومت نے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا سلسلہ بھی ختم کرنے کا عزم کیا ہے جس سے مہنگائی کے منظرنامے میں معیاری بہتری آئے گی، آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پہلی قسط کی موصولی، تیل کی سعودی سہولت کے بروئے کار آنے اور کثیر طرفہ و دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے امداد کے دیگر وعدوں کے نتیجے میں بیرونی مالکاری کا منظر نامہ مزید مضبوط ہوا ہے۔ جاری کھاتے کا خسارہ مسلسل گھٹ رہاہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی دبائو  میں کمی آتی جارہی ہے۔ دوسری جانب پچھلے زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد سے شرح مبادلہ میں کمی سے مہنگائی کا دبائو  بڑھا ہے جبکہ بین الاقوامی محاذ پر ابھرتی ہوئی منڈیوں کی جانب احساسات بہتر ہوئے ہیں اور امریکامیں پالیسی ریٹ میں کٹوتی کی زیادہ توقعات ہیں۔ پیش کردہ مانیٹری پالیسی کے مطابق   مالی سال 2019ء میں ملکی طلب کے کم ہوکر تقریباً3 فیصد اور جی ڈی پی نمو کے 3.3 فیصد ہوجانے کا امکان ہے۔ اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ مالی سال 2020میں حقیقی جی ڈی پی نمو لگ بھگ3.5فیصد رہے گی مگر یہ تازہ ترین دستیاب معلومات سے مشروط ہے۔  زری پالیسی کے مطابق بیرونی حالات میں مسلسل بہتری دکھائی دے رہی ہے اور جولائی تا مئی مالی سال19ء میں جاری کھاتے کا خسارہ29.3فیصد کم ہوکر12.7ارب ڈالر ہوگیا ہے جبکہ یہ پچھلے سال کی اسی مدت میں17.9 ارب ڈالر تھا۔اس بہتری کی بنیادی وجہ درآمدی سکڑائو  اور کارکنوں کی ترسیلات ِزر کی بھرپور نمو ہے۔ برآمدی حجم بڑھتا رہا ہے حالانکہ اکائی قیمتوں میں کمی کے باعث برآمدی قدریں پست رہی ہیں جیسا کہ حریف برآمدی ممالک کو بھی تجربہ ہوا ہے۔ برآمدی کارکردگی میں آئندہ تبدیلیوں کا انحصار بھی ہمارے تجارتی شراکت داروں کی شرح نمو اور ملکی ساختی رکاوٹیں دور کرنے میں پیش رفت پر ہوگا۔  آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت کی پہلی قسط کی موصولی کے بعد12جولائی2019ء کو اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر بڑھ کرتقریباً 8 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ سعودی تیل کی سہولت سمیت دیگر عالمی قرض دہندگان کی جانب سے مزید رقوم کی آمد اور جاری کھاتے کے خسارے میں مسلسل بہتری کے نتیجے میں توقع ہے کہ ذخائر مالی سال20ء کے دوران مزید بڑھیں گے۔ ماضی میں شرح مبادلہ کی زائد قدر سے نمٹنے کے لیے حقیقی موثر شرح مبادلہ میں جو ردّوبدل ضروری تھا، شرح مبادلہ میں حالیہ تبدیلی کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ مکمل ہوگیا ہے۔ اگر چہ شرح مبادلہ لچکدار ہے اور مارکیٹ کے مطابق اس کا تعین ہوتا ہے تاہم اسٹیٹ بینک بازار ِمبادلہ میں انتشار سے نمٹنے کے لیے کارروائی کرنے کیلئے تیار ہے۔ مالیاتی شعبے کے حوالے سے بتایا گیا کہ مالی سال2019 میں مجموعی مالیاتی اور بنیادی خسارے دونوں بڑھے جس کا بڑا سبب محاصل کی وصولی میں نمایاں کمی، بجٹ سے بڑھ کر سودی ادائیگیاں اور امن و امان سے متعلق اخراجات تھے۔ مالی سال2020   کے بجٹ میں ٹیکسیشن نظام میں طویل عرصے سے موجود کمزوریوں کو دور کرکے اور معاشی سرگرمیوں کی دستاویزیت بڑھا کر مالیاتی بگاڑ کے حالیہ رجحان کو معتبر انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ٹیکس وصولی کے ایک بلند ہدف اور اخراجات پر سخت کنٹرول کی مدد سے بجٹ میں بنیادی خسارے میں نمایاں کمی کرنے کا منصوبہ رکھا گیا ہے۔ اس مالیاتی یکجائی سے اسٹیٹ بینک کی استحکام کی پہلے سے جاری پالیسیوں کو تقویت ملے گی۔ زری پالیسی کے نقطہ نظر سے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا سلسلہ ختم کرنے کے مضبوط حکومتی عزم اور اسٹیٹ بینک کی تحویل میں واجب الادا قرضوں کی تشکیل نو کیلئے واجبات کے انتظام کے آپریشن پر عملدرآمد سے زری پالیسی کی ترسیل کو فائدہ پہنچے گا جبکہ آگے چل کر مارکیٹ کی مہنگائی کی توقعات بھی معتبر طور پر قابو میں رہیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ استحکام کے اثرات کی عکاسی کرتے ہوئے نجی شعبے کے قرضے کی نمو بھی کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ یکم جولائی سے28جون مالی سال2019 کے دوران نجی شعبے کا قرضہ 11.4 فیصد بڑھا ہے جبکہ پچھلے سال کے اسی عرصے میں 14.8 فیصد بڑھا تھا۔ قرضے کی رفتار میں کمی حقیقی لحاظ سے زیادہ نمایاں تھی کیونکہ نجی شعبے کے قرضے میں زیادہ تر اضافہ خام مال کی بلند قیمتوں کی وجہ سے ہوا جس نے کاروباری اداروں کی جاری سرمائے کی ضروریات کو بڑھا دیا۔اس کے ہمراہ بلند میزانیہ قرضوں کے نتیجے میں بینکاری نظام کے خالص ملکی اثاثوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر یکم جولائی سے28جون مالی سال2019کے دوران زر ِوسیع (ایم ٹو)12.2 فیصد بڑھ گیا جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں10.0 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ آگے چل کر رسد ِزر کی ہیئت ترکیبی تبدیل ہونے کی توقع ہے کیونکہ بینکاری نظام کے خالص بیرونی اثاثوں میں بہتری کی پیشگوئی ہے جبکہ خالص ملکی اثاثوں کی نمو میں نمایاں کمی آئے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک سے بلند حکومتی قرض،شرح مبادلہ میں کمی کا اثر،ایندھن کی ملکی قیمتوں میں اضافے اور غذائی اشیا کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے باعث مالی سال2019میں مہنگائی نمایاں طور پر بڑھ کر7.3فیصد ہوگئی۔ جون2019ء میں مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت8.9فیصد تھی اور یوٹیلٹی کی قیمتوں میں ردّوبدل کے ایک بار کے اثر اور مالی سال2020ء کے بجٹ کے دیگر اقدامات کے باعث مختصر مدت میں اس کے مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ مالی سال کی دوسری ششماہی میں یہ دبائو  کم ہونے کا امکان ہے اور زری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ مالی سال2020 میں مہنگائی اوسطاً 11سے12 فیصد رہے گی۔زری پالیسی کمیٹی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مہنگائی کی ان پیش گوئیوں سے ظاہر ہونے والی حقیقی شرح سود اور آج کا پالیسی ریٹ کا فیصلہ مجموعی طلب کی دَوری کمزوری کے پیش نظر موزوں سطح پر ہیں۔