مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر بھارتی حکومت کو قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے
وزیر اعظم مودی کی حکومت کو ایک بڑی مشکل یہ پیش آسکتی ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کوئی حکومت نہیں
بھارتی سپریم کورٹ بھی حکومت کی جانب سے منسوخ کی گئی خصوصی حیثیت کے معاملے پر درخواست سن سکتا ہے
آرٹیکل 370 کی منسوخی پر کئی آئینی درخواستیں دائر کی جاسکتی ہیںنئی دہلی میں وکلا کا ایک گروپ پہلے ہی کام کررہا ہے
نئی دہلی(کے پی آئی)بھارت کے قانونی ماہرین اور سپریم کورٹ کے وکلا کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر حکومت کو قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جبکہ نئی دہلی میں وکلا کا ایک گروہ اس معاملے پر آئینی درخواست پر کام کررہا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی وکلا کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے سے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی حیثیت ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس کی قانونی حیثیت پر عدالت میں سوال کیا جاسکتا ہے۔کے پی آئی کے مطابق حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے بعد ماہرین قانون نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو ایک بڑی مشکل یہ پیش آسکتی ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کوئی حکومت نہیں ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ برس بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے اتحادی حکومت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں
صدارتی راج نافذ کیا گیا تھا جس کے تحت انتظامی معاملات چلائے جارہے ہیں جبکہ ریاستی اسمبلی کو توڑ دیا گیا تھا۔بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل اخیل سبال کا کہنا تھا کہ اگر صدارتی حکم نامہ جاری ہوا تھا تو اب وہ نافذالعمل ہے، کیا وہ تمام معاملات کا احاطہ کر رہا ہے اور یہ ایک قانونی مسئلہ ہوسکتا ہے۔ماہر قانون مالا ویکا پراساد کا کہنا تھا کہ تبدیلی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اگر ریاست میں ایک سال سے صدارتی حکم نامہ نافذ ہے۔بھارتی وکلا کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی پر کئی آئینی درخواستیں دائر کی جاسکتی ہیں اور نئی دہلی میں وکلا کا ایک گروہ آئینی درخواست کے حوالے سے پہلے ہی کام کررہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی حکومت کی جانب سے منسوخ کی گئی خصوصی حیثیت کے معاملے پر درخواست سن سکتا ہے۔حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے معاملے پر بھی قانونی پیچیدگی پیدا ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کیونکہ بی جے پی حکومت نے لداخ کی حیثیت کو دیگر کشمیر سے الگ رکھا ہے۔بی جے پی اور وزیراعظم مودی کے اس فیصلے کو مسلم اکثریتی جموں اور کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں جہاں دہائیوں سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔واضح رہے کہ بھارت کے وزیر داخلہ اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے بھارتی ایوان بالا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے لیے بل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر رام ناتھ کووند پہلے ہی اس بل پر دستخط کرچکے ہیں۔سابق اے ایس جی اور عدالت عظمی کے سینئر ایڈووکیٹ کے سی خوشک نے کہا کہ آرٹیکل 370 میں تبدیلی کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا متاثرہ پارٹی لازمی طور پر اسے چیلنج کرے گی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کون سی جماعت یا تنظیم اسے اس وقت چیلنج کرے گی۔ لیکن اسے بعد میں چیلنج کیا جائے گا۔انھوں نے واضح کیا کہ آئین میں یہ درج ہے کہ اگر کوئی جماعت یا شہری کسی آرڈر یا نوٹیفیکیشن سے متاثر ہوتا ہے تو وہ متعلقہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے مطابق میں بی جے پی کا یہ اقدام یا فیصلہ بہت اچھا ہے تاہم اسے لاگو کرنے سے متعلق احتیاط برتنے کے ضرورت ہو گی۔انڈیا کے آئینی ماہر اور وکیل اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ یہ فراڈ کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کا معاملہ بہت واضح ہے اس کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔اس کو صرف قانون ساز اسمبلی ہی ختم کر سکتی ہے اور قانون ساز اسمبلی کو سنہ 1956 میں ہی تحلیل کر دیا گیا تھا۔ اور اب مودی سرکار آرٹیکل 370 کو توڑ مڑوڑ کے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اے جی نورانی کا کہنا تھا کہ حکومت نے کشمیر کو تقسیم کر دیا ہے کو کہ جنا سانگھ کے بانی سیاما پرساد مکھرجی کا خواب تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جموں اور کشمیر کو ایک ساتھ رکھنے کا مقصد چند لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا ہے دراصل ان کی نیت شروع ہی سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنا تھی۔آرٹیکل 35-اے کو ختم کیے جانے پر انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے کشمیر پر برے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ یہ کشمیر کی خاص شناحت کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی اقدام سے کشمیر پر اقوام متحدہ کے مجوزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ اس کو اعلی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں علم کہ سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ دے گی۔