Site icon Teleco Alert

یو کے باوجودپورے مقبوضہ کشمیرمیں بھارت مخالف مظاہرے  سرینگر کا نواحی علاقہ صورہ: کشمیری مزاحمت کا نیا مرکز

مقبوضہ کشمیرمیں مسلسل 23دن بھی کرفیو جاری ، لوگوں کو خوراک ، ادویات اور دیگر اشیائے ضرویہ کی شدید قلت کا سامنا
رفیو کے باوجودپورے مقبوضہ کشمیرمیں بھارت مخالف مظاہرے

سرینگر کا نواحی علاقہ صورہ: کشمیری مزاحمت کا نیا مرکز
صورہ میں قابض فورسز کی طرف سے مظاہرین پر گولیوں ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کے بے دریغ استعمال سے بیسیوں افراد زخمی
صفا کدل  میں محمد ایوب نامی شہری بھارتی فوج کی آنسو گیس کے دھوئیں کی وجہ سے شہید
خاندان کے چند ہی افراد کو جنازے میں شرکت کا اجازت دی گئی،برطانوی نشریاتی ادارے کی کشمیربارے تازہ رپورٹ

سرینگر(صباح نیوز) مقبوضہ وادی کشمیرمیں منگل کو مسلسل 23ویںدن بھی کرفیو اور مواصلاتی پابندیاں رہنے کے باعث لوگوں کو خوراک ، ادویات اور دیگر اشیائے ضرویہ کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔وادی کشمیر اور جموں ریجن کے پانچ اضلاع میں بازار اور سکول بند ہیں جبکہ انٹرنیٹ ، ٹیلی فون ، موبائیل اور ٹی وی چینل سمیت تمام مواصلاتی سروسز معطل ہیں۔ مقامی اخبارات آن لائن ایڈیشنز اپ ڈیٹ نہیں کرپارہے ہیں اوربیشتراخبارات شائع بھی نہیں ہورہے ہیں۔سیدعلی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور محمد اشرف صحرائی اورسینکڑوں سیاسی رہنماء سمیت دس ہزار سے زائد کشمیری مسلسل گھروں یا جیلوں میں نظربند ہیں۔ 5اگست کو بی جے پی کی حکومت نے جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا ۔ قابض انتظامیہ نے سرینگر کے گورنمنٹ میڈیکل کالج کے یورالوجسٹ ڈاکٹر عمر سلیم کو گرفتار کرلیا ہے ۔ انہیںمقبوضہ علاقے میں بھارت کی طرف سے طویل عرصے سے عائد کرفیو اورسخت پابندیوں کی وجہ سے کشمیرمیںجاری شعبہ صحت کی شدید ترین بحران کے بارے میںمیڈیا کو آگاہ کرنے کے ایک دن بعد گرفتار کیاگیا۔مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے تازہ ترین جارحانہ اقدامات اور کشمیری عوام پر ہندو کلچر ٹھوسنے کے خلاف ہزاروں افراداحتجاج کیلئے شمالی ، جنوبی اور وسطی کشمیرمیں  منگل کوکرفیو اور دیگر پابندیوں کو توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ۔   سرینگر کے علاقے صورہ میں قابض فورسز کی طرف سے مظاہرین پر گولیوں ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کے بے دریغ استعمال سے بیسیوں افراد زخمی ہو گئے ۔ دستکاریوں کی دکان کے مالک سمیر وانی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ کشمیریوں کیلئے یہ زندگی اور موت جیسی صورتحال ہے کیونکہ قابض فورسز نے دانستہ طورپر ان کا کاروبار تباہ اور بنیادی حقوق سلب کر رکھے ہیں۔ متعد دمظاہرین کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے بچوں کی فکر ہے جنہیں فوجیوںنے دوران شب چھاپوں کے دوران اغواکرلیا ہے ۔علاوہ ازیں برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ٹ کہ’گلیوں میں ہنگامہ تھا۔ رکشہ ڈرائیور اسے گھر لے کر آیا۔  جب نمائندے نے باہر نکل کر پوچھا کیا ہوا ہے؟   پوچھا کیا تم گر گئے تھے۔ اس نے کہا میرے اندر آنسو گیس کا دھواں چلا گیا ہے۔ وہ تھوکتا رہا اور پھر اسے ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ پھر ہم اسے ہسپتال لے گئے لیکن وہ راستے میں ہی  شہید ہوچکا تھا۔’یہ  الفاظ ہیں 17 اگست کو سرینگر کے علاقے صفا کدل میں جان کی بازی ہارنے والے محمد ایوب کی اہلیہ خضری کے ہیں۔اہل خانہ اور علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ایوب کی موت پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کے نتیجے میں پھیلنے والے دھوئیں سے کی وجہ سے دم گھٹنے سے ہوئی جو گھر سے باہر نکلے ہی تھے کہ شیلنگ کی وجہ سے گر پڑے۔اس دن علاقے میں جھڑپیں ہوئی تھیں اور محمد ایوب گھر سے باہر یہ معلوم کرنے نکلے تھے کہ کیا ہوا ہے۔تین بیٹیاں اور ایک بیوہ کو پیچھے چھوڑ جانے والے ایوب کی موت کے بارے میں جاننے کے لیے برطانوی نشریاتی ادرے کے نامہ نگار   ہسپتال گئے۔وہ کہتے ہیں کہ سرینگر کے ایس ایم ایچ ہسپتال میں جب ایوب کو لایا گیا تو انھیں مردہ قرار دیا گیا۔ لواحقین اور عینی شاہدین نے موت کی وجہ آنسو گیس کا دھواں اور دم گھٹنا بتائی۔ لیکن ہسپتال کی رپورٹ میں موت کی اصل وجہ نہیں لکھی گئی۔نامہ نگار کے مطابق ہسپتال کے انتظامی حکام سے ایوب کی موت کی اصل وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی گئی تاہم حکام نے ہم سے بات کرنے سے انکار کیا۔پولیس حکام سے جب اس حوالے سے پریس کانفرنس میں سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اسے ایک افواہ قرار دیا۔لیکن ایوب کی موت کے بعد علاقے میں ایک بار پھر پرتشدد مظاہرہ ہوا اور پولیس کو پھر مظاہرین کو منتشر کرنا پڑا۔اہل خانہ میں ایوب کے بھائی فیاص نے جو اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں، یہ گلہ بھی کیا کہ ان کو بھائی کے جنازے کے ساتھ نہیں رہنے دیا گیا اور نہ ہی زیادہ لوگ نماز جنازہ پڑھ سکے کیونکہ جس گاڑی میں ان کا جسد خاکی تھا وہ پولیس کی تحویل میں تھی جسے پورے شہر میں گھما کر لے جایا گیا۔ خاندان کے چند ہی افراد جنازے میں شریک ہو سکے۔اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ایک انسان کی ہلاکت ہوئی ہے جانور کی نہیں اور ہمیں انصاف چاہیے۔محمد ایوب کی بیٹی نے روتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے اپنے والد سے کہا تھا کہ باہر جا کر دیکھیں کیا کیا ہو رہا ہے۔  مقبوضہ کشمیر میں 22 روز کے دوران ایوب کی موت کے بعد پیر کو ایک اور ہلاکت کی اطلاع موصول ہوئی جس کی تصدیق حکام نے بھی کی ہے۔پولیس کی جانب سے ایک ٹرک ڈرائیور کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔پولیس نے ٹرک ڈرائیور کی ہلاکت کا مقدمہ ایک نوجوان کے خلاف درج کیا ہے۔پولیس کا دعوی ہے کہ بچھ بہاڑا میں جو کہ اننت ناگ ضلعے کا قصبہ ہے، ٹرک ڈرائیور کی ہلاکت پتھرا کے نتیجے میں ہوئی۔ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم اور پتھرا کے بیچ میں پھنس گیا تھا اور ٹرک پر قابو نہیں رکھ سکا تھا۔بڑی تعداد کی وجہ سے سکیورٹی فورسز سول ٹرکوں میں بھی سفر کرتی ہیں اور نوجوانوں نے یہ فرض کر لیا کہ اس ٹرک میں فورسز ہیں۔پولیس نے ایک اور علاقے میں پتھرا کے نتیجے میں ایک خاتون اور ایک شخص کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔حکومت کی جانب سے یہ اعتراف کیا جاتا ہے کہ امن کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو احتیاطی طور پر گرفتار کیا جاتا ہے تاہم حکام ان کی تعداد نہیں بتاتے۔صورہ پولیس سٹیشن سمیت دیگر چند اور پولیس سٹیشنز کے باہر گرفتار ہونے والے نوجوانوں کے رشتے داروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔اب ایک سلسلہ چل پڑا ہے جسے حکومت کمیونٹی بانڈ کہتی ہے۔ یعنی ایک محلے سے ایک لڑکے کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کے رشتے داروں، پڑوسیوں پر مشتمل 20 افراد کے وفد کو طلب کیا جاتا ہے۔ وہ ضمانت دیتے ہیں کہ یہ لڑکا اب کسی جلسے جلوس میں شرکت نہیں کرے گا۔ لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی کو رہا کیا جائے۔پیر کو ایک مقامی صحافی کو گرفتار کیا گیا اور پھر کئی صحافیوں کی کوششوں کے بعد یہ کہہ کر رہا کیا گیا کہ وہ انسانی حقوق کے بارے میں کم لکھیں۔سرینگر سے 120 کلومیٹر جانے والے جنوبی کشمیر کے کلگام ضلع کے ولی ناٹ گلزار آباد میں انڈین فورسز تو تعینات نہیں تاہم مکین پھر بھی گہرے خوف میں مبتلا ہیں۔مقامی شخص محمد اشرف نے بتایا کہ بھلے ہی یہاں سکیورٹی فورسز تعینات نہیں لیکن ہم گہرے سائے میں ہیں۔علاقے میں یا تو اشیائے خوردونوش ختم ہونے کو ہیں یا بہت مہنگی۔تیس سالہ حلیمہ نے بتایا کہ ان کی بچی کو دیے جانے والے دودھ کے سب ڈبے ختم ہو گئے ہیں، بازار بند ہیں اور ان کی بچی کمزور ہو گئی ہے۔حاملہ خواتین کو بھی ہسپتال تک پہنچانا مشکل ہے کیونکہ ڈرائیور حضرات علاقے سے باہر جانے میں گھبراتے ہیں۔
#/S

Exit mobile version