Site icon Teleco Alert

تشدد کی خوفناک صورتحال سے برطانوی میڈیا نے پردہ اٹھالیا ۔کشمیر ٹارچر سیل میں تبدیل

قبوضہ کشمیرمیں کشمیریوں پر بھارتی فوجی مظالم پر پردہ اٹھنے لگے
تشدد کی خوفناک صورتحال سے برطانوی میڈیا نے پردہ اٹھالیا ۔کشمیر ٹارچر سیل میں تبدیل
 لاٹھیوں اور بھاری تاروں سے مارا گیا اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے ۔بھارتی تشد د کا شکار کشمیریوں کی برطانوی میڈیاسے گفتگو
فوجیوں نے ہمیں ٹانگوں کی پچھلی جانب مارا۔ جب ہم بے ہوش ہو گئے تو انھوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔ جب انھوں نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو انھوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر دیے
کپڑے اتارے تو انھوں نے تقریباً دو گھنٹے تک مجھے بے رحمی سے ڈنڈوں اور سلاخوں کے ساتھ پیٹا۔ جب میں بے ہوش ہو گیا تو انھوں نے مجھے ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔’
نوجوانوں کی داڑھیوں کو جلانے کی کوشش
بھارتی فوج کے تشدد کا شکار کشمیری جوانوں کی روج کاپنے والی داستان
سرینگر لندن (کے پی آئی )انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ریاست کی خود مختاری ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کے بعد کشمیریوں نے سکیورٹی فورسز پر مارپیٹ اور تشدد کے الزامات عائد کیے ہیں۔کئی دیہاتیوں نے برطانوی میڈیا کو بتایا کہ انھیں لاٹھیوں اور بھاری تاروں سے مارا گیا اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ کئی دیہاتیوں نے اپنے زخم بھی دکھائے ہیں۔انڈیا کی فوج نے ان الزامات کو ‘بے بنیاد اور غیر مْصدقہ’ قرار دیا ہے۔بے مثال پابندیوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو تین ہفتوں سے بھی زائد عرصے سے لاک ڈاؤن کی صورتحال میں دھکیل دیا ہے اور 5 اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے اندرونی حالات سے متعلق معلومات بمشکل باہر آ رہی ہیں۔خطے میں ہزاروں اضافی فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق سیاسی رہنماؤں، کاروباری شخصیات اور کارکنان سمیت تقریباً 3000 افراد کو زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔ کئی افراد کو ریاست کے باہر موجود جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔حکام کے مطابق یہ اقدامات پیشگی ہیں اور علاقے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ جموں و کشمیر مسلمان اکثریت رکھنے والی انڈیا کی واحد ریاست تھی لیکن اب اسے دو الگ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جو وفاق کے زیر انتظام ہوں گی۔انڈین فوج کو یہاں تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے علیحدگی پسند جدوجہد کا سامنا ہے۔ برطانوی میڈیاکے نمائندے نے  انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی اضلاع کے کوئی آدھ درجن دیہاتوں کا دورہ کیا۔ یہ وہ علاقے ہیں جو گذشتہ کچھ برسوں سے انڈیا مخالف عسکریت پسندی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔  ان تمام دیہاتوں میں کئی لوگوں سے رات گئے چھاپوں، مارپیٹ، اور تشدد کی ملتی جلتی کہانیاں بیان کیں۔ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کے حکام صحافیوں سے کسی بھی مریض کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتے، چاہے انھیں کوئی بھی بیماری ہو۔ لیکن دیہی علاقوں میں رہنے والوں نے برطانوی میڈیا کواپنے زخم دکھائے اور ان کا الزام سکیورٹی فورسز پر لگایا ہے۔ایک گاؤں میں دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر اور دہلی کے درمیان خصوصی انتظام کو ختم کرنے کے متنازع فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی فوج گھر گھر گئی۔دو بھائیوں کا الزام تھا کہ انھیں جگایا گیا اور باہر ایک علاقے میں لے جایا گیا جہاں ان کے گاؤں کے تقریباً ایک درجن دیگر مرد بھی جمع تھے۔ ہم جس سے بھی ملے، ان کی طرح یہ لوگ بھی اپنی شناخت ظاہر ہونے پر سنگین نتائج کے خوف کا شکار تھے۔ان میں سے ایک نے بتایا ‘انھوں نے ہمیں مارا۔ ہم ان سے پوچھتے رہے ‘ہم نے کیا کیا ہے؟ آپ گاؤں والوں سے پوچھ لیں اگر ہم نے کچھ غلط کیا ہے؟’ مگر وہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتے تھے اور انھوں نے کچھ بھی نہیں کہا، وہ بس ہمیں مارتے رہے۔’انھوں نے میرے جسم کے ہر حصے پر مارا پیٹا۔ انھوں نے ہمیں لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے، تاروں سے پیٹا۔ انھوں نے ہمیں ٹانگوں کی پچھلی جانب مارا۔ جب ہم بے ہوش ہو گئے تو انھوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔ جب انھوں نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو انھوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر دیے۔’ہم نے انھیں بتایا کہ ہم بے قصور ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ یہ کیوں کر رہے تھے؟ مگر انھوں نے ہماری ایک نہ سنی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں، بس ہمیں گولی مار دیں۔ میں خدا سے موت کی دعا کر رہا تھا کیونکہ یہ تشدد ناقابلِ برداشت تھا۔’ایک اور نوجوان دیہاتی نے کہا کہ سکیورٹی اہلکار ان سے کہتے رہے ‘پتھراؤ کرنے والوں کے نام بتاؤ’۔ ان کا اشارہ ان عموماً نوجوان اور نوعمر لڑکوں کی جانب تھا جو گذشتہ ایک دہائی سے وادی کشمیر میں سویلین مظاہروں کا چہرہ بن چکے ہیں۔’انھوں نے کہا کہ انھوں نے سپاہیوں سے کہا بھی کہ وہ کسی کو نہیں جانتے، جس پر انھیں عینک، کپڑے اور جوتے اتارنے کے لیے کہا گیا۔’جب میں نے کپڑے اتارے تو انھوں نے تقریباً دو گھنٹے تک مجھے بے رحمی سے ڈنڈوں اور سلاخوں کے ساتھ پیٹا۔ جب میں بے ہوش ہو گیا تو انھوں نے مجھے ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔’انھوں نے کہا ‘اگر انھوں نے میرے ساتھ یہ دوبارہ کیا تو میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں بندوق اٹھاؤں گا۔ میں یہ روز روز برداشت نہیں کر سکتا۔’ان نوجوان نے مزید بتایا کہ سپاہیوں نے گاؤں میں سب کو خبردار کرنے کے لیے کہا کہ اگر کسی اور نے بھی فورسز کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی تو انھیں ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔بطانوی میڈیاکے نمائندے نے تمام دیہاتوں میں جتنے بھی لوگوں سے بات کی، ان کا ماننا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے یہ دیہاتیوں کو ڈرانے کے لیے کیا تاکہ وہ احتجاج کرنے سے خوف زدہ رہیں۔برطانوی میڈیانے اپنی رپورٹ میں کہا کہ وہ کئی دیہات سے گزرے جہاں کے زیادہ تر رہائشی علیحدگی کے حامی عسکریت پسند گروہوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور انھیں ‘جنگجوئے آزادی’ قرار دیتے۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے اس حصے میں ہی ایک ایسا ضلع ہے جہاں فروری میں ہونے والے ایک خودکش حملے نے 40 سے زائد انڈین فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور پاکستان اور انڈیا کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔یہی وہ خطہ ہے جہاں مشہور کشمیری  مجاہد کمانڈر برہان وانی سنہ 2016 میں شہید ہوئے تھے، جس کے بعد کئی نوجوان اور غصیلے کشمیریوں نے انڈیا کے خلاف مزاحمت میں حصہ لیا۔اس خطے میں ایک فوجی کیمپ ہے اور سپاہی یہاں باقاعدگی سے چھاپے مارتے ہیں تاکہ عسکریت پسندوں اور ان کے ہمدردوں کا پتا چلایا جا سکے، مگر دیہاتی کہتے ہیں کہ وہ اکثر ان کے بیچ میں پھنس جاتے ہیں۔ایک دیہات میں  موجود ایک شخص سے نے کہا کہ فوج نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر وہ عسکریت پسندوں کے خلاف مخبر نہ بنے تو انھیں پھنسا دیا جائے گا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ان کے انکار پر انھیں اس بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی وہ کمر کے بل لیٹ نہیں سکتے۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں صورہ کے علاقے میں انڈیا مخالف مظاہرے کی ویڈیو ان کا کہنا تھا ‘اگر یہ جاری رہا تو میرے پاس اپنا گھر چھوڑ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ وہ ہمیں ایسے مارتے ہیں جیسے جانوروں کو مارا جاتا ہے۔ وہ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔’ اپنے زخم دکھانے والے ایک اور شخص نے کہا کہ ’15 سے 16 سپاہیوں’ نے انھیں زمین پر گرایا اور ‘تاروں، بندوقوں، ڈنڈوں اور شاید فولادی سلاخوں سے’ بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔’میں نیم بے ہوش تھا۔ انھوں نے میری داڑھی اس بری طرح سے کھینچی کہ مجھے لگا جیسے میرے دانت باہر گر پڑیں گے۔’انھوں نے کہا کہ ان پر ہونے والا تشدد دیکھنے والے ایک لڑکے نے انھیں بتایا کہ ایک فوجی نے ان کی داڑھی جلانے کی کوشش کے تھی مگر دوسرے فوجی نے انھیں روک دیا تھا۔ ایک دوسرے گاؤں میں   نے کہا کہ ان کے بھائی نے دو سال قبل کشمیر پر انڈیا کی حکومت کے خلاف لڑنے والے سب سے بڑے گروہوں میں سے ایک حزب المجاہدین میں شرکت اختیار کر لی تھی۔انھوں نے کہا کہ حال ہی میں ان سے ایک فوجی کیمپ میں تفتیش کی گئی تھی جہاں انھوں نے الزام لگایا کہ ان پر تشدد کیا گیا تھا اور ایک ٹانگ توڑ دی گئی تھی۔وہ کہتے ہیں ‘انھوں نے میرے ہاتھ باندھ دیے اور مجھے الٹا لٹکا دیا۔ انھوں نے مجھے دو سے زائد گھنٹوں تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔’مگر اس سال کے آغاز میں کشمیر کی دو نمایاں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سینکڑوں مبینہ کیسز کو قلمبند کیا گیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جامع اور آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن آف انکوائری تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے خطے میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ زیادتیوں کے بارے میں ایک 49 صفحوں پر مشتمل رپورٹ بھی جاری کی ہے۔انڈیا نے ان الزامات اور اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔
#/S
Exit mobile version