مقبوضہ کشمیر کی صورتحال افغان امن مرحلے پر اثر انداز ہوسکتی ہے سی ایس آئی ایس
مقبوضہ کشمیر میں موجودہ حالات سے اسلام آباد میں اپنے پڑوسیوں کے لیے عدم اعتماد پیدا ہوگا’
بھارت کے افغانستان کے لیے ارادوں پر پاکستان دہائیوں سے تشویش کا اظہار کر رہا ہے
واشنگٹن(کے پی آئی)واشنگٹن امریکی تھنک ٹینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال افغان امن مرحلے پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ سینٹر فور اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز (سی ایس آئی ایس) کی جانب سے کشمیر پر جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘بھارت کے افغانستان کے لیے ارادوں پر پاکستان دہائیوں سے تشویش کا اظہار کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں موجودہ حالات و واقعات سے اسلام آباد میں اپنے پڑوسیوں کے لیے عدم اعتماد پیدا ہوگا’۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘پاکستان طالبان کے ساتھ امریکا افغان امن مذاکرات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، کشمیر تنازع سے پاکستانی وسائل اور سیاست افغانستان سے دور ہی نہیں ہوگی بلکہ اس سے امریکا کی جانب سے بھارت میں مداخلت کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے’۔افغان امن مذاکرات حتمی مراحل میں ہیں اور امریکا اور طالبان وفود معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے دوحہ میں ملاقات میں نویں ملاقات کر رہے ہیں تاہم دوحہ سے ملنے والی رپورٹس میں نشاندہی کی گئی ہے واشنگٹن یکم ستمبر تک معاہدہ نہیں کرسکے گا جس کی اسے امید تھی۔اس تاخیر سے پاکستان کو موقع مل جائے گا کہ وہ طالبان کو امریکا کے ساتھ مشغول رکھے۔واشنگٹن کو بھی امید ہے کہ اسلام آباد طالبان کو افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے کے لیے رضامند کرنے کی امید رکھتا ہے۔طالبان رہنماں کا ماننا ہے کہ کابل حکومت امریکا کی کٹھ پتلی حکومت ہے اور وہ ان سے براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔جمعے کے روز کانگریس مین، چیئرمین آف ہاس سب کمیٹی برائے ایشیا بریڈ شیرمان نے اعلان کیا تھا کہ وہ جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے سماعت کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اس سماعت میں وادی کشمیر کی صورتحال پر توجہ دی جائے گی جہاں کئی سیاسی رہنماں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور انٹرنیٹ اور مواصلاتی نظام بھی بند کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘سماعت میں کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بات کی جائے گی کہ کیا عوام کو غذا، صحت وغیرہ کی سہولیات میسر ہورہی ہیں کہ نہیں’۔بریڈ شیرمان ننے اس معاملے پر بات چیت کے لیے ایکٹنگ اسسٹنٹ سیکریٹری الیس ویلز۔ عالمی مذہبی آزادی کے سفیر سیم بران بیک اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے دیگر حکام کو مدعو کیا ہے۔جہاں امریکی قانون ساز اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کشمیریوں کو بھارتی آئین کے تحت جو تحفظ فراہم ہوتا تھا اسے ختم کن وجوہات پر بھارت نے ختم کیا وہیں سی ایس آئی ایس کی رپورٹ میں اسے بی جے پی کے سیاسی نظریات سے جوڑا گیا۔