ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں: ترجمان پاک فوج میجر جنرل آ صف غفور
کشمیر ہماری شہ رگ، آخری گولی، آخری سپاہی، آخری حد تک جائیں گے
بہادر کشمیریوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آزادی کی اس جدوجہد میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں
کشمیر پر ڈیل ہماری لاشوں سے گزر کر ہوگی
پاکستان کشمیر کا معاملہ50سال بعد سلامتی کونسل میں لے کر گیا جو بڑی کامیابی ہے
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہٹلر کے پیروکار ہیں اور بھارت خطے میں نئی جنگ کے بیج بورہا ہے
جنگیں صرف ہتھیاروں اور فوجیوں سے نہیں بلکہ جذبہ حب الوطنی سے لڑی جاتی ہیں اور پڑوسی ملک کو 27فروری کو یاد رکھنا چاہیے
مسئلہ حل نہیں ہوا تو جنگ کا آپشن مجبوری ہوجائے گا
بھارت میں آر ایس ایس سوچ کی حکومت قائم ہے
پاکستانی فوج ایک پیشہ وار فوج ہے، جس طرف آرمی چیف دیکھتے ہیں، پوری فوج اسی طرف دیکھنے لگتی ہے
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں پروپیگنڈا ہیں، پاکستان کا اسرائیل سے گزشتہ 72سال سے جو موقف رہا ہے وہ برقرار ہے، اس میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئی
پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر کی میڈیا بریفنگ
راولپنڈی(صباح نیوز)پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے،کشمیر ہماری شہ رگ ہے، آخری گولی، آخری سپاہی، آخری حد تک جائیں گے’ بہادر کشمیریوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آزادی کی اس جدوجہد میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، کشمیر پر ڈیل ہماری لاشوں سے گزر کر ہوگی۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہٹلر کے پیروکار ہیں اور بھارت خطے میں نئی جنگ کے بیج بورہا ہے،جنگیں صرف ہتھیاروں اور فوجیوں سے نہیں بلکہ جذبہ حب الوطنی سے لڑی جاتی ہیں اور پڑوسی ملک کو 27فروری کو یاد رکھنا چاہیے۔ مسئلہ حل نہیں ہوا تو جنگ کا آپشن مجبوری ہوجائے گا۔ بھارت میں آر ایس ایس سوچ کی حکومت قائم ہے ۔ بدھ کوراولپنڈی میں میڈیا بریفنگ کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم جس خطے میں رہتے ہیں ہمیں وہاں کے حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، عالمی طاقتوں کے مفادات اس خطے سے وابستہ ہیں اور پاکستان کو نظرانداز کر کے عالمی طاقتوں کے مفادات پورے نہیں ہو سکتے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازع ہے لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تیز کر دی ہیں۔ پاکستان نے کشمیر کے مسائل کا ہمیشہ پرامن حل چاہا ہے تاہم بین الاقوامی طاقتوں نے اسے حل کرنے کی وہ کوشش نہیں کی جیسا کیا جانا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ میں بہادر کشمیریوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آزادی کی اس جدوجہد میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ہماری سانسیں آپ کے ساتھ چلتی ہیں، 72سال آپ نے بھارتی دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے، آپ کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی جیسے ناپسندیدہ عمل سے تابیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے نتیجے میں ہمیں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا، افغانستان میں امن ہوتا ہے تو فوج کی تعیناتی میں کمی ہوگی، قائداعظم کا فرمان ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، ایک ماہ سے کشمیری گھروں میں قید ہیں، سیاسی لیڈر قید، ادویات اور خوراک ناپید ہیں، بھارتی اپوزیشن کو بھی دورہ نہیں کرنے دیا گیا، کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، بھارت میں آر ایس ایس سوچ کی حکومت ہے، ۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی ہو سکتی ہے لیکن بھارت کو 27فروری کی حرکت یاد رکھنی چاہیے، بھارت نے کوئی حرکت دہرائی تو اسکوارڈن لیڈر حسن اور نعمان تیار بیٹھے ہیں ۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ آپ کی ثابت قدمی کو سلام ہے، ہمیں آپ کی موجودہ مشکلات کا بھرپور احساس ہے، ہم آپ کے ساتھ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور انشااللہ کھڑے رہیں گے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہمیں رب سے امید ہے کہ آپ اپنا جائز حق خود ارادیت حاصل کرکے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ثابت قدم رہیں، آزادی کی جدوجہد بہت لمبی ہوتی ہے، پاکستان کی آزادی کی جدوجہد1947میں شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا آغاز1857سے ہوگیا تھا، اتنی لمبی جدوجہد کرکے ہم نے پاکستان حاصل کیا اور کشمیر کے لیے بھی اس جدوجہد پر نہ کوئی سمجھوتہ ہوگا اور نہ اس میں کوئی کمی آئے گی۔میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کی افواج اس کی خودمختاری اور سلامتی کی محافظ ہوتی ہیں، ۔ اگر قومی طاقت کے دوسرے عناصر مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کو روکنے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوتے تو جنگ لڑنا مجبوری میں ایک آپشن بن جاتا ہے اور پھر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، اس کے لیے ہم کوئی بھی قدم اور کسی بھی انتہا تک جائیں گے خواہ اس کی ہمیں کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے، پاکستانی عوام، حکومت اور افواج پاکستان آخری گولی، آخری سپاہی، آخری سانس تک پرعزم ہیں اور رہیں گے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان کے مشرق میں ایک ایسا ملک ہے جس کے خطے کے بڑے پلیئرز کے ساتھ معاشی مفادات جڑے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے شمال میں دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت چین ہے، جس کے بھارت کے ساتھ کچھ اختلافات موجود ہیں۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہمارے مغرب میں افغانستان ہے جو دنیا کی بڑی طاقتوں کا مرکز رہا ہے جبکہ جنوب مغرب میں ایران موجود ہے جس سے ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں لیکن مشرق وسطی کے ماحول کی وجہ سے اس ملک کو مسائل درپیش ہیں۔بھارت کی بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اس وقت بھارت میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں وہاں فاشسٹ مودی کی حکومت ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خطہ امن کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن بھارت اس وقت نئی جنگ کا بیج بو رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق بات کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ وہاں کی صورتحال خراب ہے، وہاں نسل کشی جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ جنگ لڑنا جنگ کا حصہ ہے، تاہم اس سے قبل ملک کے دیگر عوامل جس میں سفارتکاری، معیشت قانون، انٹیلی جنس اور معلومات کا رد عمل چلتا رہتا ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ سفارتی سطح پر پاکستان کشمیر کا معاملہ50سال بعد سلامتی کونسل میں لے کر گیا جو بڑی کامیابی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے تقریبا 13 ممالک کے سربراہان سے بات چیت کی ہے اور انہیں کشمیر کے بارے میں آگاہ کیا۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ جو مسئلہ پہلے دبا ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ دنیا کے سامنے آرہا ہے اور دنیا اس معاملے کو اپنے سامنے رکھ رہی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت ثالثی کی پیشکش کو قبول نہیں کرتا تو پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں کس چیز پر بات کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں مقبوضہ کشمیر میں بھار تی حکومت کی خواہش ہے کہ وہ کچھ اس طرح دبائو بڑھائے کہ وہاں لوگ مشتعل ہوں جسے وہ دہشتگردی کا نام دے ۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان اب دھوکے میں نہیں آئے گا، کیونکہ کشمیر میں اسطرح کی کارروائی پاکستان کے لیے متحمل نہیں ہوسکتا۔اسٹریٹجک صلاحیت اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ یہ معاملہ سنجیدگی نوعیت کا ہے جس پر عام مقامات یا پریس کانفرنس پر بات نہیں کی جاسکتی۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ یہ عوام کے کرنے کی باتیں نہیں ہیں، بس انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اثاثہ ہیں اور جب انہیں خطرہ ہوگا تو انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت نے اپنی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دے دیا ہے جس کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی نو-فرسٹ-یوز کی کوئی پالیسی نہیں ہے، تاہم اگر بھارت پہلے استعمال کرتا ہے تو یاد رکھے کہ پہلے کے بعد دوسرا بھی آتا ہے،آزاد کشمیر سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری توجہ کا محور مشرقی سرحد ہے، تاہم اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہاں ہم کمزور ہیں ایسا نہیں ہوسکتا اس سے بھارت کو واضح رہنا چاہیے۔اسرائیل سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہائبرڈ جنگ سے نبرد آزما ہے اور اس کا مقصد یہی ہوتا ہے قوم میں اختلاف پیدا کیا جائے ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اسرائیل سے گزشتہ 72سال سے جو موقف رہا ہے وہ برقرار ہے اور اس میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور اس کے تسلیم سے متعلق بات پروپگینڈا ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت مانتا ہے کہ یہ 2طرفہ معاملہ ہے، تاہم اس نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کی ختم کرکے یہ معاملہ ختم کیا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی فوج ایک پیشہ وار فوج ہے، جس طرف آرمی چیف دیکھتے ہیں، پوری فوج اسی طرف دیکھنے لگتی ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہمارے مغرب میں افغانستان ہے جو دنیا کی بڑی طاقتوں کا مرکز رہا ہے جبکہ جنوب مغرب میں ایران موجود ہے جس سے ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں لیکن مشرق وسطی کے ماحول کی وجہ سے اس ملک کو مسائل درپیش ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملکی استحکام اندرونی اور خطے کے ماحول سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔آرمی چیف سے متعلق سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ آرمی چیف وزیراعظم کے ماتحت ہیں وہ اسی کے مطابق کام کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ خود بھی آرمی چیف کے عہدے پر براجمان نہیں ہونا چاہتے تھے کیونکہ 41 سال فوج میں سروس کرنے کے بعد ہس شخص آرام کرنا چاہتا ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پہلی مرتبہ کسی چینی صدر نے کسی بھی پاکستانی آرمی چیف کو بلایا اور ان سے ملاقات کی۔اپنی بات جو جاری رکھتے ہوئے پاکستان کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم کے زیر استحقاق رکھا گیا(آرمی چیف کو ایکسٹینشن دی گئی)، تاہم اس کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی فوج ایک پیشہ ور فوج ہے، جس طرف آرمی چیف دیکھتے ہیں، پوری فوج اسی طرف دیکھنے لگتی ہے