جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی میں مسلسل کرفیو نما صورتحال ہے .. برطانوی اخبار

جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی میں مسلسل کرفیو نما صورتحال ہے

 ب تک 3500 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ۔ان میں سے 292 افرادپی ایس اے کے تحت گرفتار 
 اس قانون   پی ایس ایکے تحت کسی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے چھ ماہ تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے
 پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قیدیوں کو بھارت کے مختلف حصوں میں قید کیا جاسکتا ہے۔برطانوی اخبار 
 سری نگر(کے پی آئی) برطانوی اخبار کے مطابق 5 اگست کو جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی میں مسلسل کرفیو نما صورتحال ہے اور اب تک 3500 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ۔ان میں سے 292 افراد کو کشمیر کے ظالمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے چھ ماہ تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے اور انہیں بھارت کے مختلف حصوں میں قید کیا جاسکتا ہے۔برطانوی اخبار کے مطابق بھارتی فوج کے اہلکار بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں 15 سالہ یاور احمد بٹ کو پکڑ کر آرمی کیمپ لے گئے، جہاں ان پر جسمانی تشدد کیا گیا۔ وہ یاور کو بہت دیر تک مارتے رہے اور نیم بے ہوشی کی حالت میں گھر کے باہر چھوڑ گئے۔انہوں نے یاور بٹ کو اسکول کارڈ کے ہمراہ دوبارہ فوجی کیمپ آنے کی ہدایت کی اور واپس چلے گئے۔ یاور احمد کی طبیعت بگڑتی چلی گئی، شدید سر درد اور الٹیوں کے باعث انہیں سری نگر اسپتال لایا گیا۔ دوران علاج وہ تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔ علاقہ مکینوں کے مطابق ضلع پلوامہ کے علاقے چندگام میں بھارتی فوج کے کیمپ پر گرنیڈ سے حملہ کیا گیا جس کے بعد بھارتی فوج نے کئی نوجوانوں کے شناختی کارڈ چھین کر انہیں کیمپ میں حاضر ہوکر شناخت کرانے کی ہدایت کی تھی۔  بھارتی اخبارات اس ہلاکت کو خود کشی کا مبینہ کیس بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ بھارت کے انگریزی اخبار دی وائر میں جب یہ خبر رپورٹ کی گئی تو اس میں بھی اس چیز کا اعتراف موجود تھا کہ تشدد اور ذہنی اذیت سے تنگ آ کر ہی یاور احمد بٹ نے زہر کھا کر اپنی جان لینے کی کوشش کی۔ دی وائر ہی کے مطابق بھارتی افواج نے اس تمام واقع کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔بھارتی فوج کی غیر قانونی حراست میں موجود کشمیری نوجوانوں کی بات کی جائے تو مزید تکلیف دہ داستانیں سامنے آتی ہیں۔ ایک زیر حراست نوجوان کی والدہ حمیدہ بیگم اپنی درد ناک روداد سنا رہی ہیں کہ کیسے وہ ہمالیہ کے متنازعہ خطے کشمیر سے سینکڑوں میل دور بھارت کے گرم اور حبس زدہ شہر آگرہ کی جیل میں قید اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے پہنچتی ہیں۔اس دوران ایک نوجوان 70 سالہ حمیدہ کو پانی کی بوتل دیتے ہوئے انہیں تسلی دیتے ہیں کہ وہ اس مصیبت کا سامنا کرنے والی واحد خاتون نہیں ہیں۔ اس پر حمیدہ لمبی ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ اس نوجوان کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہتی ہیں خدا ہمیں حوصلہ دے۔جیل کے اس کمرے میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر سے آنے والے دیگر افراد بھی سٹیل کے بینچوں پر بیٹھے اپنے پیاروں سے ملاقات کا انتظار کر رہے ہیں جن کو بھارتی فورسز نے ان کے گھروں سے اٹھا کر آگرہ سمیت ملک بھر کی جیلوں میں قید کر دیا ہے۔ گھنٹوں انتظار کے بعد حمیدہ کا نام پکارا جاتا ہے جو تیزی سے اپنے لخت جگر سے ملاقات کے لیے دوسرے کمرے کا رخ کرتی ہے۔20 منٹ بعد جب حمیدہ واپس آتی ہیں تو وہ ایک بدلی ہوئی خاتون دکھائی دیتی ہیں جن کے چہرے سے اب پریشانی کی بجائے مسرت اور اطمینان جھلک رہا ہے۔  حمیدہ نے بتایا: اپنے بیٹے کو دیکھ لینے سے انہیں عید منانے سے زیادہ خوشی محسوس ہو رہی ہے اور ان کے دل کو قرار آ گیا ہے۔ آخر کار یہ ایک ماں کا دل ہے۔حمیدہ کے ساتھ ایک اور 60 سالہ شخص گوہر مالا بھی دو روز میں 965 کلو میٹر کا سفر طے کر کے کشمیر سے آگرہ پہنچے ہیں۔ یہ دونوں بزرگ اس سفر سے پہلے اجنبی تھے لیکن دونوں کا مقصد ایک ہی تھا۔ وہ اپنے بچوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے تڑپ رہے تھے جنہیں 5 اگست کے متنازع فیصلے کے بعد ایک کریک ڈان کے دوران حراست میں لے کر بھارت کی اس سب سے بڑی جیل میں قید کر دیا گیا تھا کیوں کہ ہزاروں کشمیریوں کی حراست کے بعد وادی کی جیلوں میں جگہ کم پڑ گئی تھی۔واضح رہے کہ 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے وادی بھر میں مسلسل کرفیو نافذ ہے، ذرائع آمد و رفت معطل اور مواصلاتی نظام منقطع ہے جس کے باعث پوری وادی جیل میں تبدیل ہوگئی ہے۔ عالمی قوتوں کے بارہا تشویش کے اظہار کے باوجود مودی سرکار اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی میں مسلسل کرفیو نما صورتحال ہے اور اب تک 3500 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ان میں سے 292 افراد کو کشمیر کے ظالمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے چھ ماہ تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے اور انہیں بھارت کے مختلف حصوں میں قید کیا جاسکتا ہے۔بھارتی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ کا کہنا ہے: ہماری حراست کی شرح، ماروائے قانون اٹھانے کی شرح سے بہت کم ہے۔ ہمارے ساتھ صرف چند سو افراد موجود (قید) ہیں۔زیر حراست افراد کے خاندانوں نے الزام لگایا ہے کہ کشمیری قیدیوں کو بھارتی جیلوں میں بدترین ہراسانی اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ان سنگین حالات میں بھارتی حکام نے اب تک صرف ایک شہری کی ہلاکت کا اعتراف کیا تھا  جب کہ علاقہ مکینوں کے مطابق یاور احمد جیسے کئی نوجوان ان مظالم کا شکار ہو چکے ہیں۔کئی برس سے  انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارتی فوجیوں پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ کشمیر کی آبادی کو جسمانی اور جنسی استحصال اور بلاجواز گرفتاریوں سے ہراساں کر رہے ہیں۔ بھارتی سرکاری حکام نے ان الزامات کو علیحدگی پسند پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی ہے۔کشمیر پر تنازعہ 1940 کی دہائی کے آخر سے موجود ہے جب بھارت اور پاکستان نے برطانوی سلطنت سے آزادی حاصل کی تھی۔ دونوں ایٹمی طاقتیں کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکی ہیں جبکہ روراں سال پلوامہ میں خودکش حملے کے بعد دونوں ممالک ممکنہ جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔