مقبوضہ کشمیر میں 51دن میں 13ہزار بچے غائب
لوگ فوج کے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں ، کئی وکلا بھی جیلوں میں بند ہیں
حکومت کے تمام دعوے جھوٹے ہیں کیوں کہ میڈیا پر سنسرشپ جیسی صورتحال ہے اس لئے سچائی سامنے نہیں آرہی
کشمیر سے نتہائی دل گرفتہ ہوکر لوٹے ہیں۔ حالات کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے
فوج کشمیریوں پر ظلم و زیادتی کررہی ہے ۔ لوگوں میں فوج کے تئیں کافی غصہ ہے
گرفتار افراد کو فورا رہا کیا جائے ، جھوٹے ایف آئی آر رد کرنے ، صورتحال کو معمول پر لانے ، مواصلاتی نظام بحال کرنے اور فوج کی ظلم و زیادتی کی انکوائری کرانے او آرٹیکل 370کو بحال کیا جائے
بھارت کے سماجی کارکنوں کی دورہ کشمیر کے بعد پریس کانفرنس
نئی دہلی(کے پی آئی ) مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لے کر واپس آئے بھارت کے سماجی کارکنوں نے دعوی کیا ہے کہ آئین کی آرٹیکل 370ختم کرنے کے بعد سے پچھلے 51دنوں کے دوران 13ہزار سے زائد بچے غائب ہیں جب کہ حالات کافی خراب ہیں ، لوگ فوج کے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں اور متعدد وکلا کو بھی جیلوں میں بند کردیا گیا ہے ۔ پلاننگ کمیشن کی سابق رکن اور معروف ماہر تعلیم سعید ہ حمید کی قیادت میں پانچ خواتین پر مشتمل ایک وفد نے 17ستمبر سے 21 ستمبر تک کشمیر کے تین اضلاع کے 51 گاوں کا دورہ کرنے کے بعد اپنی جانچ رپورٹ جار ی کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہارکیا۔اس ٹیم میں نیشنل فیڈریشن آف انڈین وومن کی جنرل سکریٹری اینی راجا ، پرگتی شیل مہیلا سنگٹھن کی جنرل سکریٹری پونم کوشک، پنجاب
یونیورسٹی سے سبکدوش پروفیسر کنول جیت کور اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر پنکھڑی ظہیر نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے جموں کشمیر کی صورتحال کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا اور کہا کہ 51 دن بیت جانے کے بعد بھی صورتحال معمول پر آنے کے کوئی آثار نہیں ہیں اور حکومت کے تمام دعوے جھوٹے ہیں کیوں کہ میڈیا پر سنسرشپ جیسی صورتحال ہے اس لئے سچائی سامنے نہیں آرہی ہے ۔ شوپیان ، پلوامہ اور باندی پورہ اضلاع کا دورہ کرکے واپس آئیں ان خواتین نے بتایا کہ لوگ فوج کے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں کیوں کہ فوج ان پر زیادتی کررہی ہے اور ان پر ظلم و ستم ڈھارہی ہے۔ رات آٹھ بجتے ہی سب کو اپنے گھروں کی روشنی بجھا دینی پڑتی ہے اور دکانیں ، کالج سے لے کر پورا شہر بند پڑا ہے ۔ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی ذرائع بند ہیں جس سے لوگو ں کی اقتصادی حالت بھی بہت خراب ہوگئی ہے ۔مسلم وومنز فورم کی سعیدہ حمید نے کہا کہ وہ سب وہاں سے انتہائی دل گرفتہ ہوکر لوٹی ہیں۔ حالات کو دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ پورا شہر خاموش ہے، دکانیں نہیں کھلتی ہیں ،فصلیں برباد ہوگئی ہیں ، سیب بھی تباہ ہوگئے ہیں،اور دس سے بارہ سال سے لے کر 22-24 برس کے 13ہزار لڑکے نوجوان غائب ہوگئے ہیں اور ان کے گھر والوں کو پتہ نہیں ہے کہ فوج کے جوان ان کے بچوں کو کہاں لے گئے ہیں۔کشمیر میں پیدا ہوئی سعیدہ حمید نے کہا کہ جموں و کشمیر سے متعلق آئین کی آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کشمیر میں ترقی نہیں ہوئی ہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ 1934 سے ہی وہاں تعلیم کی ترقی ہوئی ہے اور ترقی کے کئی پیمانوں پر کشمیر دیگر ریاستوں سے بہتر ہے ۔پیشے سے وکیل پونم کوشک نے کہا کہ جموں و کشمیر بار ایسوسی ایشن کے دفتر پر تالا لگا ہوا ہے اور وکیلوں کو پیپلز سیکورٹی قانون میں گرفتار کرکے آگرہ، جالندھر، فریدآباد کی جیلوں میں قیدر کھا گیا ہے اور ان کے گھروالوں کو نہیں بتایا جارہا ہے کہ وہ کس جیل میں ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی خواتین تنظیم سے وابستہ اینی راجا نے کہا کہ ان کی ٹیم نے کسانوں ، وکیلوں ، ڈاکٹروں ، نرسوں، اسکول کالجوں کے طلبہ اور پروفیسروں اور خواتین خانہ سے بھی ملاقات کی۔ ان سب کا کہنا تھا کہ انہیں مرکزی حکومت نے دھوکہ دیا ہے اور فوج ان پر ظلم و زیادتی کررہی ہے ۔ لوگوں میں فوج کے تئیں کافی غصہ ہے ۔ان خواتین کارکنوں نے گرفتار افراد کو فورا رہا کرنے ، جھوٹے ایف آئی آر رد کرنے ، صورتحال کو معمول پر لانے ، مواصلاتی نظام بحال کرنے اور فوج کی ظلم و زیادتی کی انکوائری کرانے او آرٹیکل 370کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا
#/S