عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) نے بھارتی معیشت کے دیوالیہ ہونے کے سنگین خدشات کا اظہار کردیا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں بھارت سے سوال پوچھا گیا ہے کہ قومی بجٹ میں میں ٹیکسوں اور جی ایس ٹی ٹیکسز کے حوالے سے جو اہداف مقرر کیے گئے وہ تاحال حاصل نہیں ہوئے
بھارتی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال یکم اپریل سے 15 اگست کے درمیان براہ راست ٹیکس ریونیو میں بہت زیادہ کمی ہوئی اور وصولی کی شرح کم ہو کر 4.7 فیصد تک پہنچ گئی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں سال دوسری سہ ماہی کی رپورٹ میں ٹیکس وصلی کی شرح 9.6 فیصد تھی اس طرح تیسرے سہ ماہی میں مطلوبہ شرح 17.3 فیصد کم رہی جسے اور بھی بڑھایا جانا چاہیے
بھارتی معیشت میں سست روی کے باعث لاکھوں افراد کا روزگار ختم ہوگیا، حکومتی اداروں معاشی ماہرین کے بعد اب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی گرتی معیشت پر تشویش کا اظہار کیا۔
کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل سے جون 2018 کے درمیانی عرصے میں بھارت نے 1064 ملین امریکی ڈالر کہ مصنوعات برآمد کی تھیں۔ لیکن اس سال کے اسی عرصے میں ملکی برآمدات کی مالیت بہت زیادہ کمی کے بعد 695 ملین ڈالر رہ گئی تھی۔
گویا برآمدات میں 35 فیصد کی کمی ہوئی۔ بھارت میں اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت بھی نہایت خراب ہے۔ اس شعبے سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر دس کروڑ افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ لیکن ملک بھر میں ایک تہائی اسپننگ ملیں بند ہو چکی ہیں اور جو چل رہی ہیں، وہ بھی خسارے میں ہیں۔ معیشت میں سست روی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید پر بھی کافی اثر پڑا ہے۔ دیہی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بسکٹ تیار کرنے والی ایک 90سال پرانی اور سب سے بڑی کمپنی پارلے اپنے بسکٹوں کا ایک پیکٹ صرف پانچ روپے میں فروخت کرتی ہے، جو کہ دیہی علاقوں میں بہت مقبول ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے بسکٹوں کی فروخت میں سات سے آٹھ فیصد تک کی کمی ہو چکی ہے۔ بھارت ہی میں بسکٹ تیار کرنے والی ایک اور بہت بڑی کمپنی برٹانیہ کا کہنا ہے کہ لوگ اب پانچ روپے کا بسکٹ کا پیکٹ خریدنے سے پہلے بھی دو مرتبہ سوچتے ہیں.
آئی ایم ایف نے بھارتی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ حائل رکاوٹوں کو دور کرے اگر ایسا نہ ہوسکا تو بھارتی معیشت کے لیے شدید دھچکا ہو سکتا ہے۔