کشمیر میں 66 لاکھ موبائل سبسکرائبر ہیں جن میں سے تقریبا 40 لاکھ پوسٹ پیڈ موبائل کنکشنز ہیں
حکومتی اشتہار نے نارملسی(صورتحال کا معمول پر ہونا) کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔..
اویس سلطان خان
نارملائزیشن (حالات معمول پر آنا) سے ہم ابھی بہت دور ہیں۔ کشمیر تو پوری طرح بند پڑا ہے..
شبنم ہاشمی
سرینگر (صباح نیوز) مقبوضہ کشمیر میں خصوصی حیثیت کے خاتمے کے تقریبا 70 دنوں کے بعد پوسٹ پیڈ موبائل ٹیلیفون سروسز بحال کر دی گئی ہیں لیکن ابھی بھی انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔ جبکہ انڈیا میں سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ کشمیر میں حالات ویسے نہیں ہیں جیسے حکومت پیش کر رہی ہے۔انڈین حکومت کے ترجمان روہت کنسل نے پیر کو میڈیا کو بتایا کہ ‘ پیر کو 12 بجے سے کشمیر کے تمام دس اضلاع میں پوسٹ پیڈ موبائل فون سروسز بحال کر دی گئی ہیں۔’اس سے قبل انھوں نے کہا تھا کہ پری پیڈ سروسز یا انٹرنیٹ کی خدمات فی الحال معطل رہیں گی۔ موبائل فون کے کھل جانے سے لوگوں میں راحت کا احساس ہے۔ ایک خاتون نے انھیں بتایا کہ 70 دنوں کے بعد ان کی گھر بات ہوئی ہے اور وہ خوش ہیں۔ایک اندازے کے مطابق کشمیر میں 66 لاکھ موبائل سبسکرائبر ہیں جن میں سے تقریبا 40 لاکھ پوسٹ پیڈ موبائل کنکشنز ہیں۔ دوسری جانب انڈیا میں سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ کشمیر میں حالات ویسے نہیں ہیں جیسے انڈیا کی حکومت پیش کر رہی ہے بلکہ وہاں ایک قسم کی پراسرار خاموشی اور سول نا فرمانی جیسی صورتحال ہے جسے کشمیریوں کے احتجاج کا نیا طریقہ کہا جا رہا ہے۔جبکہ دوسری جانب حکومت کا دعوی ہے کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں کہیں بھی کرفیو نافذ نہیں ہے البتہ وہاں اجتماعات پر پابندی ہے اور تعزیرات ہند کی دفعہ 144 نافذ ہے۔حکومت نے جمعے کے روز کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات میں وادی میں جاری شٹ ڈاون اور پبلک ٹرانسپورٹ کے غیر اعلانیہ بائیکاٹ سے احتراز برتنے کے لیے ایک بھی اشتہار دیا ہے۔حکومتی اشتہار میں کہا گیا ہے دکانیں بند ہیں، کوئی بھی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے، اس سے کس کا فائدہ ہے؟ 70 سال سے زیادہ عرصے سے جموں کشمیر کے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ہم آج ایک دو راہے پر ہیں۔ کیا ہم دھمکی اور جبر کے پرانے طریقے سے متاثر ہوتے رہیں گے؟ کیا ہم عسکریت پسندوں سے مغلوب ہو جائیں گے؟اس پر دی ہندو اخبار کی رپورٹ کے مطابق کانگریس کے رہنما سلمان سوز نے کہا حکومتی اشتہار نے نارملسی(صورتحال کا معمول پر ہونا) کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ ابھی چند دن قبل ہی واشنگٹن میں انڈین سفارتخانے نے کہا تھا کہ آل از ویل (سب ٹھیک ہے)۔دوسری جانب اتوار کو انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مغربی ریاست مہاراشٹر کے جلگاں میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کو یہ کہتے ہوئے نشانہ بنایا کہ کشمیر اور لداخ صرف زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ انڈیا کا تاج ہے۔انھوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 پر انڈیا کا حزب اختلاف پڑوسی ملک (پاکستان) کے طرز پر بات کر رہا ہے۔سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق انھوں نے کہا کہ میں حزب اختلاف کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے منشور میں یہ اعلان کرے کہ وہ آرٹیکل 370 کو بحال کریں گے۔ جموں کشمیر اور لداخ ہمارے لیے صرف زمین کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ انڈیا کا تاج ہے۔مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں نے حال ہی میں کشمیر کا دورہ کیا اور دارالحکومت دہلی میں جمعے کے روز کشمیر سول نافرمانی کے تحت ایک رپورٹ پیش کی ہے۔غیر سرکاری تنظیم انہد کی روح رواں اور سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکار یا نیشنل میڈیا جو بتا رہا ہے حالات اس سے بالکل مختلف ہیں۔ نارملائزیشن (حالات معمول پر آنا) سے ہم ابھی بہت دور ہیں۔ کشمیر تو پوری طرح بند پڑا ہے۔ سری نگر میں البتہ کچھ دکانیں صبح و شام کھلتی ہیں۔ سرکاری ملازموں سے کہا گیا ہے کہ انھیں کام پر جانا ہے تو وہ اپنی گاڑیوں سے جائیں لیکن بپلک ٹرانسپورٹ بالکل بند ہے۔انھوں نے مزید کہا ہم جہاں بھی گئے وہاں سب بند ہے۔ سارے رہنما بند ہیں۔ کوئی کال نہیں ہے لیکن لوگ پہلی مرتبہ خاموشی کو ایک ہتھیار کے طور پر سول نافرمانی کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور گاندھی کے ستیاہ گرہ کے طرز پر اپنا احتجاج دکھا رہے ہیں۔جبکہ حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔اس سے قبل شبنم ہاشمی نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جس طرح نوٹ بندی کے اثرات انڈین معیشت پر اب اثر انداز ہو رہے ہیں اسی طرح مستقبل میں کشمیر کے تعلق سے کیے گئے فیصلے کا اثر ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ کشیمر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ‘ترقی کا دور شروع ہوگا۔’سماجی کارکن شبنم ہاشمی کا کہنا تھا کہ اگر اب کشمیر میں عسکریت پسندی ابھرتی ہے تو اس کے ذمہ دار مودی حکومت اور امت شاہ ہوں گے کیونکہ انھوں نے بغیر سوچے سمجھے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کیا ہے۔حقوق انسانی کے کارکن اویس سلطان خان نے ابھی دو دن قبل ہی سول سوسائٹی کے ایک علیحدہ وفد کے ساتھ کشمیر کا اپنا چار روزہ دورہ مکمل کیا ہے۔انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا جنوبی کشمیر میں بہت زیادہ بے چینی کا ماحول ہے لیکن پورے کشمیر میں ایک تاریخی بات یہ ہو رہی ہے کہ وہاں لوگ عدم تشدد کے ساتھ نئے طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ سارا کشمیر صبح سات بجے بیدار ہوتا ہے، دکانیں کھلتی ہیں لیکن پھر وہ ساڑھے دس، گیارہ بجے تک سب بند کر دیتے ہیں۔اب اکثر جگہ پر کرفیو نہیں ہے لیکن لوگ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے خلاف احتجاج میں دن بھر سب کچھ بند رکھتے ہیں۔ بازار دکانیں بند، سڑکیں سنسان، ٹرانسپورٹ بالکل بند ہے۔ یہاں تک کہ سیب کی فصل تیار ہے، کثیر تعداد میں پھل پیڑوں پر لگے ہیں۔ لوگ اسے سکھا رہے ہیں لیکن فروخت نہیں کر رہے ہیں۔اس سے قبل حکومت نے کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کی سیب کی فصل خریدنے کے لیے تیار ہے۔سلطان خان نے کہا ٹرانسپورٹ اور مواصلات بند ہیں لیکن اس سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ نوجوانوں اور بچوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا گیا ہے اور تمام سیاسی سماجی مذہبی رہنما خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر سے ہوں کسی بھی مسلک سے ہوں وہ سب گرفتار ہیں یا نظر بند ہیں۔انھوں نے مزید کہا آپ کو حیرانی ہو گی کہ انھوں نے نہ صرف بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو ہی گرفتار کیا بلکہ محرم کا جو جلوس نکلا اور اس پر شیلنگ ہوئی، گولیاں چلیں، ذاکر حضرات گرفتار ہوئے۔ آٹھ محرم کے آس پاس جو ذوالجناح کی شبیہ نکلتی ہے اسے بھی گرفتار کر لیا گیا اور اسے ابھی تک واپس نہیں کیا گیا ہے۔دلدل کے متعلق ہمیں حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں ملی لیکن گرفتاریوں کے بارے میں حکومت ہند کا موقف ہے کہ کشیدگی کے خطرات کے پیش نظر چند گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ صحافی ماجد جہانگیر نے بتایا کہ انھوں نے کئی بار اس کے متعلق سوال کیا لیکن حکومت اس پر کھل کر کچھ کہنے کو تیار نہیں ہے۔اس کے علاوہ اویس سلطان خان نے کہا دہلی کے اشارے پر سنہ 1953 میں جو شیخ عبداللہ کا تختہ الٹا گیا تھا اس کے بعد سے پہلی بار سنہ 2019 میں تمام کشمیری ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور وہ اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں اور اس سے نئی دلی کے حکمرانوں میں بے چینی ہے کہ ان پر تشدد ہو رہا ہے گولیاں چل رہی ہیں اور وہ کیوں پرتشدد احتجاج نہیں کر رہے ہیں۔جب بی بی سی نے سلطان خان سے دریافت کیا کہ آیا انھوں نے حکومت کے اہلکاروں سے رابطہ کرکے اس بابت بات کی تو انھوں نے کہا ان سے عام آدمی کا ملنا انتہائی مشکل ہے۔ وہاں یا تو گورنر ہیں یا پھر ضلعی کمشنرز ہیں۔ ان کے گرد اتنی سخت سکیورٹی جتنی ہمیں دہلی میں صدر جہموریہ اور وزیر اعظم کے یہاں بھی نظر نہیں آتی۔اسی کے متعلق جب ہم نے شبنم ہاشمی سے پوچھا تو انھوں نے کہا حکومت کا خیال تھا کہ ہم یہ کریں گے اور ہمیشہ کی طرح کشمیری نکلیں گے، پتھر ماریں گے، سڑکوں پر نکلیں گے اور گولی چلے گی جس کے نتیجے میں پانچ دس ہزار لوگ مر جائیں گے جس کے خوف میں ان کو ڈرا کر کنٹرول کر لیا جائے گا وہ ہوا نہیں۔انھوں نے مزید کہا حکومت تو یہ چاہتی ہے کہ ڈنڈے، گولی اور بندوق کے زور پر سب کے منھ بند کرا دیے جائیں اور یہ معاملہ صرف کشمیر کا نہیں بلکہ پورے انڈیا کا ہے کہ جو بولے آپ اس کو جیل میں ڈال دیجیے، حراست میں لے لیجیے، اس پر غداری کا چارج لگا دیجیے۔ کسی قسم کی مخالفت نہ ہو۔ ان کو ڈر ہے کہ فون کھلے گا تو لوگوں کی مخالفت کی آواز باہر آنی شروع ہوگی۔۔۔ وہ دنیا کو جو بتانا چاہتے ہیں صرف وہی بیانیہ ہو کوئی متبادل یا لگ بیانیہ دنیا کے سامنے نہ آئے۔اویس سلطان خان نے کہا کہ فون کھلنے سے لوگوں کو آسانی ہوگی۔ کہیں موت ہو جاتی ہے پتا نہیں چلتا۔ ہم خود جب وہاں گئے تو رابطے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ کسی کے گھر پہنچے تو پتا چلا کہ وہ تو گرفتار ہو گئے ہیں، کسی کے بارے میں پتا چلا کہ وہ دوسری جگہ چلے گئے ہیں۔شبنم ہاشمی نے بی بی سی کو بتایا کہ صورت حال تشویش ناک ہے۔حکومت ت
…