پی ٹی اے کی طرف سے سرکاری اداروں کونجی ٹیلی کام آپریٹر سے سروس کی اجازت کے بعد سائبر سیکورٹی رسک بڑھ گیا قائمہ کمیٹی میں انکشاف
جس ادارے پر حملہ ہوتاہے تحقیق کرنے پر پتہ چلتاہے کہ وہ نجی ٹیلی کام آپریٹر کی سروس استعمال کررہاہے، این ٹی سی
سرکاری ادارے جو جی میل ، ہاٹ میل اور یاہو استعمال کرتے ہیں ان کا ڈیٹا محفوظ نہیں ہے حکام
پلوامہ واقعہ کے بعد 50 ملین آئی ٹی سیکورٹی پر حملے کیے گئے جن کو اس ادارے نے ناکام بنایا
تمام سرکاری اداروں کوسائبر حملوں سے بچانے کے لیے این ٹی سی سروس لینے کاپابند کیاجائے کمیٹی کی سفارش
سائبرسیکورٹی بہت بڑا رسک ہے سرکاری دستاویزات ہر حال میں محفوظ ہونی چاہیے اس پر کسی قسم کاسمجھوتہ نہ کیاجائے چیئرپرسن
اسلام آباد(صباح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حکام نے انکشاف کیاہے کہ پی ٹی اے کی طرف سے سرکاری اداروں کونجی ٹیلی کام آپریٹر سے سروس کی اجازت کے بعد سائبر سیکورٹی رسک بڑھ گیاہے جس ادارے پر حملہ ہوتاہے تحقیق کرنے پر پتہ چلتاہے کہ وہ نجی ٹیلی کام آپریٹر کی سروس استعمال کررہاہے، پلوامہ واقعہ کے بعد 50ملین آئی ٹی سیکورٹی پر حملے کیے گئے جن کو اس ادارے نے ناکام بنایا۔قائمہ کمیٹی نے تمام سرکاری اداروں کواین ٹی سی سے سروس لینے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہاکہ سائبرسیکورٹی بہت بڑا رسک ہے سرکاری دستاویزات ہر حال میں محفوظ ہونی چاہیے اس پر کسی قسم کاسمجھوتہ نہ کیاجائے ۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ تمام سرکاری اداروں کوسائبر حملوں سے بچانے کے لیے این ٹی سی سروس لینے کاپابند کیاجائے۔جمعرات کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت این ٹی سی کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں این ٹی سی کے کام کے طریقہ کار، کارکردگی ، بجٹ اور ادارے کی طرف سے دی جانے والی سہولیات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ منیجنگ ڈائریکٹر این ٹی سی بریگیڈیئر(ر)وقار رشید خان نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ 1991 میں حکومت نے ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر کو پی ٹی سی میں تبدیل کیا ۔دوسرے مرحلے میں پی ٹی سی کو 5 اداروں پی ٹی سی ایل ، این ٹی سی ، پی ٹی اے ، ایف بی اے اور پی ٹی ای ٹی میں تقسیم کر دیا گیا ۔این ٹی سی کو گورنمنٹ کے اداروں بشمول دفاع میں ٹیلی کام سروسز فراہم کرنے کا اختیار دیا گیا ۔ این ٹی سی 1996 کے ٹیلی کمیونیکیشن تنظیمی ایکٹ کے تحت 2006 میں ترمیم کر کے کارپوریٹ باڈی میں تبدیل کی گئی یہ ادارہ گورنمنٹ سے کوئی فنڈ نہیں لیتا ۔ مختلف سروسز کی فراہمی کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن سے ملازمین کی تنخواہیں اور منصوبہ جات مرتب کرتا ہے ۔این ٹی سی کا ایک منیجمنٹ بورڈ ہے جس کا چیئرمین سیکرٹری آئی ٹی ہوتا ہے اور اس کے ٹوٹل تین ممبران ہیں ۔ ادارے میں کل ملازمین کی تعداد2217ہے۔کل آمدن کا 72 فیصد ملازمین کی تنخواہوں میں اور 15 سے 20 فیصد منصوبہ جات میں خرچ ہوتا ہے یہ ادارہ حکومتی اداروںکو بشمول آرمڈ فورسز ، دفاعی منصوبہ جات ، وفاقی و صوبائی حکومتوں اور حکومتی ایجنسیوں اور اداروں کو ٹیلی کمیونیکیشن کی سروسز فراہم کرتا ہے ۔ این ٹی سی کے آپٹیکل فائبر نیٹ ورک پشاور سے کراچی اور گوادر بندرگاہ تک پھیلا ہو اہے ۔کامیاب جوان اینڈ پاکستان سیٹیزن پورٹل کی سروسز بھی فراہم کی جارہی ہیں ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ ادارہ پنجاب کے 36 اضلاع میں سے 33،سندھ کے29 میںسے22 ، خیبر پختونخواہ کے 35 میں سے12 اور بلوچستان کے34 میں سے 6اضلاع میں سروسز فراہم کر رہا ہے ۔لوگوںکو تیز تر انٹر نیٹ کی سہولیات کی فراہمی کیلئے ٹی ڈی این سسٹم کو این جی این سسٹم پر 68 فیصد منتقل دیا گیا ہے ۔196 فیصد ایکسچینج کی تعداد میں گزشتہ پانچ برسوں میں اضافہ ہوا اور ملک کے مختلف شہروںمیں76 فیصد ایکسچینج کی تعداد میںا ضافہ کیا گیا ۔ سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں جو گوادر سے ملتے ہیں میں ادارہ سروسز فراہم کرے اور بلوچستان کے صرف 6 اضلاع میں سروسز دی جا رہی ہیں ۔ جس پر قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبہ بلوچستان کے شہروں کے مابین فاصلہ بہت زیادہ ہے سروس کی فراہمی کیلئے بہت زیادہ خرچ آتا ہے ۔یو ایس ایف جن علاقوں میں کام کر رہا ہے ایک سمری تیار کی جارہی ہے کہ ان کی سہولت لے کر سروسز فراہم کی جائیں ۔ چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو اپنے ماتحت اداروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دے کر زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ این ٹی سی اس لئے بھی قائم کیا گیا تھا کہ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے بعد حکومتی اداروں کو محفوظ سروسز فراہم کی جائیں ۔چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ ہمارا ڈیٹا اتنا محفوظ نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ وہ سرکاری ادارے جو جی میل ، ہاٹ میل اور یاہو استعمال کرتے ہیں ان کا ڈیٹا اتنا محفوظ نہیں جتنا ہمارے ادارے کی طرف سے سروسز استعمال کرنے والوں کا ہے ۔ پلوامہ واقعہ کے بعد 50 ملین آئی ٹی سیکورٹی پر حملے کیے گئے جن کو اس ادارے نے ناکام بنایا ۔2016 میں نیشنل ڈیٹا سینٹر قائم کیا گیا جس پر 450 ملین روپے خرچ آئے جس سے اب تک 419 ملین روپے کی آمدن ہو چکی ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے این ٹی سی میں آئی ٹی ماہرین اور دیگر عملے کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لیں ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے 2016-17 میں ایک سروے کروایا جس کے مطابق 72 فیصد صارفین ادارے کے کارکردگی سے مطمعن ہیں ،14 فیصد نیوٹرل اور 14 فیصد نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ۔ 2015 سے اس ادارے کو پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی اجازت بھی دی گئی ۔ ادارے نے مختلف سیلولر کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے ادارے نے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کیلئے جامع منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔2014-15 میں اس ادارے کی آمدن2.8 ارب روپے اور خرچ2.9 ارب روپے تھا اب ادارے کے آمدن3.9 ارب روپے اور خرچ3.8 ارب روپے ہے ۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کے کامیاب نوجوان کامیاب پاکستان پروگرام تک 11.2 ملین افراد نے رسائی حاصل کی ہے ۔اس پروگرام پر بھی سائبر حملوں کی کوشش کی گئی ہے جسے ناکام بنایا گیاہے ۔ زیادہ تر حملے بھارت اور کچھ اندرونی سطح سے بھی ہوئے ہیں ۔ایم ڈی این ٹی سی نے قائمہ کمیٹی سے سفارش کی کہ سرکاری اداروں کو حکومت کی ہدایات کے مطابق پابند کیا جائے کہ وہ اس ادارے کی سروسز استعمال کریں ۔حکام نے بتایاکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) کی طرف سے سرکاری اداروں کونجی ٹیلی کام آپریٹر سے سروس کی اجازت کے بعد سائبر سیکورٹی رسک بڑگیاہے جس ادارے پر حملہ ہوتاہے تحقیق کرنے پر پتہ چلتاہے کہ وہ نجی ٹیلی کام آپریٹر کی سروس استعمال کررہاہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے نے پنجاب کے 15نئے اضلاع و شہروں ، سندھ کے 18 ، بلوچستان کے 8 اور خیبر پختونخواہ کے 3 میں سروسز شروع کیں ہیں اور اس کے صارفین کی تعداد میں13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ براڈ بینڈ کے شعبے میں گزشتہ پانچ برسوںکے دوران 107 اضافہ ہوا ہے ۔اس ادارے نے 16 ملین ڈالر فارن ایکسچینج آئی جی ای اپریشن سے کمایا ہے ۔قائمہ کمیٹی نے ادارے کو ڈیٹا کو مزید محفوظ اور آئی ٹی حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے مزید موثر اقدام اٹھانے پر زوردیا ۔ قائمہ کمیٹی نے این ٹی سی کی طرف سے بنائے گئے نیشنل ڈیٹا سینٹر کا دورہ کیا اور این ٹی سی کی طرف سے بنائے گئے ڈیٹا سینٹر اور اس کی صلاحیتوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اداروں کی دی جانے والی قابل اعتماد سہولیات کی تعریف کی ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز فیصل جاوید ، کلثوم پروین ، ثناجمالی ، ڈاکٹر اشوک کمار، انجینئر رخسانہ زبیری ، غوث محمد خان نیازی اور ڈاکٹر شہزاد وسیم کے علاوہ منیجنگ ڈائریکٹر این ٹی سی بریگیڈیئر (ر)وقار رشید خان، جوائنٹ سیکرٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی محمد تیمور خان اور این ٹی سی کے دیگر اعلی حکام نے شرکت کی ۔