سرینگر،25اکتوبر (ساؤتھ ایشین وائر):
مقبوضہ کشمیر میں انتظامیہ نے مقامی اخبارات کے مدیران سے گذشتہ تین برسوں کے انکم ٹیکس کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔
انتظامیہ نے مقامی اخبارات کے مدیران سے گذشتہ تین برسوں کے انکم ٹیکس کا ریکارڈ طلب کرنے پر اگرچہ ریاستی محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ (ڈی آئی پی آر) کے عہدیداروں نے ایک سالانہ مشق قرار دیاہے لیکن اخبارات کے مالکان یا ایڈیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ اعلان انہیں مرعوب کرنے اور ان پر دباؤڈالنے کی کوشش ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ حکومت اور میڈیا کے درمیان رابطے کا موثر ادارہ ہے۔ اسی کے ذریعے اخبارات کو اشتہارات فراہم کئے جاتے ہیں جبکہ محکمہ حکومت کی کارکردگی سے متعلق مواد اخبارات کو بغرض اشاعت ارسال کرتا ہے۔
نیوز سروس ساؤتھ ایشین وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اخبارات کو تین برسوں کے انکم ٹیکس گوشوارے فراہم کرنے کرنے کی ‘تجویز’ محکمہ اطلاعات کے ایک عہدیدار نے اس وقت دی، جب مقامی صحافی محکمے کے قائم کردہ عارضی میڈیا سنٹر میں کام کررہے تھے۔
یہ میڈیا سینٹر اگست میں قائم کیا گیا تھا تاکہ اپنے دفاتر میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی صورت میں میڈیا ادارے حکومت کی فراہم کردہ سہولت کا فائدہ اٹھا سکیں۔ یہ سنٹر ابتدا میں سر ینگر کے ایک ہوٹل کے کانفرنس روم میں قائم کیا گیا تھا لیکن اس ہفتے اسے ڈی آئی پی آر کے مرکزی دفتر میں منتقل کردیا گیا۔
وہیں پر حکومتی عہدیدار وں نے کہا کہ ‘مقامی اخبارات میں ملازم صحافی اپنے ایڈیٹرز کو گذشتہ تین برسوں کی انکم ٹیکس رٹرنز ڈی آئی پی آر کو پیش کرنے کے لئے کہیں۔’
ایک مقامی انگریزی روزنامہ کے ایڈیٹر نے ساؤتھ ایشین وائر کو بتایا کہ ‘ہم سے پہلی بار انکم ٹیکس گوشوارے مانگے جارہے ہیں۔ ہمیں اسکی صحیح وجہ معلوم نہیں ہے۔’
کشمیر میں 5 اگست سے پہلے ہی میڈیا پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں شروع کی گئی تھی۔ ساؤتھ ایشین وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے)نے چند ماہ قبل کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر کے پرنٹر اور پبلشر رشید مخدومی کو دلی طلب کیا اور ان سے کئی روز تک تفتیش کی۔ اسکے بعد اسی اخبار کے مدیر فیاض کلو کو بھی ایسے ہی مراحل سے گزارا گیا۔ گریٹر کشمیر کے مدیران کی دہلی طلبی کے بعد ایک اور انگریزی روزنامہ کشمیر ریڈر کے مالک و مدیر حاجی حیات محمد بٹ کو این آئی اے ہیڈکوارٹر پر طلب کیا گیا۔اردو روزنامہ آفاق کے مدیر غلام جیلانی قادری کو بھی پولیس نے ایک چھاپے میں انکی رہائش گاہ سے گرفتار کیا۔ قادری کو تیس برس پرانے کیس میں وارنٹ جاری کیا گیا تھا۔
مقامی صحافیوں کے مطابق اگرچہ ان مدیروں کو بعد میں جانے دیا گیا لیکن انکی طلبی اور تفتیش سے حکام نے جو پیغام دینا چاہا اسے صحافیوں نے بخوبی سمجھ لیا ہے۔انکم ٹیکس کے حوالے سے ایک مقامی ایڈیٹر نے بتایا کہ انہیں ابھی تک اس سلسلے میں باضابطہ احکام موصول نہیں ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘جو کچھ بھی بتایا گیا وہ صرف زبانی تھا۔ ہمیں کوئی تحریری حکم نہیں ملا۔ جب ہمیں تحریری آرڈرفراہم کیا جائے تبھی ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ کیا معاملہ ہے’۔
تاہم ڈی آئی پی آر حکام نے ساؤتھ ایشین وائر سے بات کرتے ہوئے اصرار کیا کہ انکم ٹیکس ریٹرنز طلب کرنا معمول کی کارروائی ہے۔
ایک اور سینئیر عہدیدار نے ساؤتھ ایشین وائر کوبتایا کہ ہم اخبارات کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان دعووں میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ڈی آئی پی آر پہلی بار انکم ٹیکس کے ریکارڈ طلب کر رہا ہے۔ہم یہ ہر سال کرتے ہیں۔
ایک اردو روزنامہ کے ایڈیٹرنے ،جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ، اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ڈی آئی پی آر کو چاہئے کہ وہ پچھلے برسوں سے تحریری خط و کتابت کا ریکارڈ پیش کرے تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ یہ کام پہلے بھی ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار ہے جب ڈی آئی پی آر انکم ٹیکس گوشوارے مانگ رہے ہیں۔ ہمیں سختی سے کہا گیا ہے کہ تفصیلات جمع کروائیں۔
ایک مقامی صحافی نے بتایا کہ یہ اقدام ہمیں خوفزدہ کرنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں ۔ ریاستی انتظامیہ یہاں کے مقامی پریس کو دبانا اور ڈرانا چاہتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں 83روزسے لاک ڈاؤن کے باعث اخبارات کی اشاعت نہیں ہوسکی ۔
مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈان کی وجہ سے کشمیری گھروں میں قید ہیں، نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ بھارت سب کچھ نارمل ہونے کا پروپیگنڈا کر رہا ہے لیکن مقبوضہ وادی میں سکول کالج، کاروباری مراکز اور ٹرانسپورٹ بند ہے۔کشمیری عوام کو خوراک اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔
بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔
بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔