سرینگر،30اکتوبر(ساؤتھ ایشین وائر):
5اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے 27 یورپی یونین کے پارلیمنٹیرینز کے وفد نے منگل کے روز مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ کیا۔
نریندر مودی کی زیرقیادت حکومت کویورپی پارلیمنٹیرینز کے وفد کوکشمیر جانے کی اجازت دینے کے اپنے فیصلے پرشدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جس میں ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی شامل ہیں۔
لیکن ساؤتھ ایشین وائر نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ مبینہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے دفترکی آشیرباد کے ساتھ ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی ہدایت پر 24 دائیں بازو کے یورپی یونین کے پارلیمنٹیرین کے کشمیر کے “نجی” دورے کا منصوبہ بنایا گیا اور بڑی حد تک اس پر عمل درآمد کیا گیا۔
بی جے پی کے ایک رہنما نے کہا کہ یہ دورہ ، کشمیر کے اس طرح کے مجوزہ دوروں میں واحد اور پہلا واقعہ ہے۔
بظاہر اس دورے کی منصوبہ بندی مبینہ طور پر برطانوی شہری میڈی شرما کے ذریعہ کی گئی جو ایک نجی تنظیم’ ڈبلیو ای ایس ٹی ٹی'(اقتصادی اور سماجی تھنک ٹینک برائے خواتین )کی بانی ہے۔ اس این جی اوسے ایک اور ہندوستانی تھنک ٹینک ‘انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نان الائنڈسٹڈیز’ کے ذریعے رابطہ کیا گیا اور تمام اخراجات مہیا کئے گئے ۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق برطانوی سیاستدان کرس ڈیوس کو بھیجے گئے دعوت نامے اسی ادارے کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔
حقیقت میں ، اس دورے کی بہت ہی احتیاط اور باریک بینی سے منصوبہ بندی کی گئی جس کا مقصد بین الاقوامی برادری کو کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے گمراہ کرنا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جیشنکر اس منصوبہ بندی سے آگاہ تھے ان کے علاوہ وزارت خارجہ کے تمام بڑے عہدیدار اس سے لاعلم تھے۔ساؤتھ ایشین وائر کو معلوم ہوا ہے کہ جیشنکر نے رواں سال 30 اگست کو برسلز کے دورے پر یورپی پارلیمنٹ کے ممبروں کو کشمیر کا دورہ کروانے کا خیال پیش کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق بیرونی دوروں کے تمام انتظامات فارن آفس کو کرنا ہوتے ہیں۔ لیکن ان پروٹوکولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندوستانی حکومت نے دفترخارجہ کی بجائے براہ راست میڈی شرما اور ان کی این جی او کو استعمال کرنے کافیصلہ کیا۔اس این جی او نے تمام شرکاء کو دعوت نامے بھیجتے ہوئے یہ بتایا کہ وہ بھارت کے وزیر اعظم کے ساتھ” وی آئی پی میٹنگ “کا اہتمام کررہی ہے ۔ یہ تمام انتظامات براہ راست اجیت دوول کی نگرانی میں ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وفد کا مقصد مودی سرکار کی کشمیر پالیسی کے ناقدین کو خاموش کرنے کے لئے حمایت حاصل کرنا تھا۔
بی جے پی کے ایک اور رہنما نے ساؤتھ ایشین وائر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس طرح کی کوششوں کو جاری رکھنا چاہئے۔ ہمیں ان لوگوں کو صحیح نقطہ نظر پیش کرنا ہوگا جو توقعات کے بغیر ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ صرف اجتماعی کوششیں ہی مثبت نتائج کا باعث بنیں گی ۔
دورے کے حوالے سے برطانیہ کے لبرل ڈیموکریٹس کرس ڈیوس کو بھی دعوت دی گئی تھی ۔کرس ڈیوس کے دفتر کے سٹاف نے بتایا کہ وہ ابتدائی طور پر آنے پر راضی ہوچکے تھے ، لیکن جب انھوں نے اصرار کیا کہ ان کے ساتھ آزاد صحافی بھی شامل ہوں گے تو ان کا دعوت نامہ منسوخ کردیا گیا۔
ڈیوس نے اپنے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا کہ پہلے ہی لمحے مجھے اس دورے کی دعوت سے محسوس ہوا کہ اس سٹنٹ کا مقصد نریندر مودی کو تقویت پہنچانا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ کشمیر میں حکومت ہند کے اقدامات ایک عظیم جمہوریت کے بہترین اصولوں کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں ۔