بینکنگ اور انٹرنیٹ سروسز فوری طور پر بحال کی جائیں لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی کا حق حاصل ہے
غیر معمولی حالات میں ہی انٹرنیٹ بند کیا جانا چاہئے انٹرنیٹ غیر معینہ مدت کے لئے بند نہیں کیا جاسکتا
پابندیوں سے متعلق تمام احکامات کو شائع کیا جانا چاہیے تاکہ انہیں عدالت میں چیلنج کیا جاسکے عدلات کا حکم
حکومت7 دن کے اندر ان فیصلوں پر نظر ثانی کرے سپریم کورٹ کی کمیٹی حکومت کے فیصلوں کا جائزہ لے گی
کشمیر ٹائمز ‘ کی ایڈیٹر انورادھا بھسین، کانگریس کے سینیئر رہنما غلام نبی آزاد کی درخواستوں پر فیصلہ جاری
نئی دہلی(کے پی آئی) بھارت کی سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو ایک ہفتے میں مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019 سے عائد تمام پابندیوں کا ازسرِ نو جائزہ لینے کا حکم دے دیا۔مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو کے تحت نقل و حرکت اور مواصلاتی پابندیوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ انٹرنیٹ کی آزادی بنیادی حق ہے۔ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ بینچ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادی اظہار رائے کے ساتھ انٹرنیٹ تک رسائی کا حق شامل ہے لہذا انٹرنیٹ پر پابندیوں کے لیے آرٹیکل 19(2) کے تحت تناسب کے اصولوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔دی وائر کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کسی خاص مدت کے بغیر اور غیر معینہ مدت تک انٹرنیٹ کی معطلی ٹیلی کام قوانین کی خلاف ورزی ہے۔جسٹس این وی رمن، جسٹس آر سبھاش ریڈی اور جسٹس بی آر گوئی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے حکم دیا ہے کہ ریاستی حکومت انٹرنیٹ پر پابندی، دفعہ 144 اور سیاحت پر لگی پابندی اور دوسری پابندیوں سے متعلق تمام احکامات کو شائع کیا جانا چاہیے تاکہ انہیں عدالت میں چیلنج کیا جاسکے۔ر اس کے ساتھ ہی 7 دن کے اندر ان فیصلوں پر نظر ثانی کرے ۔ہندوستان ٹائمز کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ من مانی کرتے ہوئے بنیادی اختیارات پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔عدالتی بینچ نے ریمارکس دیے کہ ہماری محدود تشویش لوگوں کی آزادی اور سیکیورٹی سے متعلق توازن تلاش کرنا ہے، ہم شہریوں کو حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے یہاں موجود ہیں، ہم ان احکامات کے پیچھے موجود سیاسی خواہشات تلاش نہیں کریں گے۔واضح رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے لے کر اب تک مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے اور مواصلاتی بلیک آٹ موجود ہے۔مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے چند ماہ بعد فون کالز اور محدود ٹیکسٹ میسیجز کی اجازت دی گئی تھی تاہم انٹرنیٹ سروسز تاحال معطل ہیں۔ کے پی آئی کے مطابق سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے جو فیصلے لیے جائیں گے اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یہ کمیٹی حکومت کے فیصلوں کا جائزہ لے گی اور سات دن کے اندر عدالت کو رپورٹ پیش کرے گی۔ سپریم کورٹ نے ساتھ ہی کہا ہے کہ بینکنگ سروسزاور ضروری مقامات پر انٹرنیٹ خدمات کو فوری اثر سے بحال کیا جائے۔ عدالت نے کہا ہے کہ جموں کشمیر میں لوگوں کا تحفظ اور آزادی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ کشمیر میں لوگوں کی آزادی سب سے اہم ہے۔ ۔ یاد رہے بھارتی حکومت نے جموں ۔کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد وہاں لگائی گئی پابندیوں کو 21 نومبر کو صحیح ٹھہرایا تھا۔ بھارتی حکومت نے عدالت میں کہا تھا کہ حکومت کے احتیاطی اقدامات کی وجہ سے ریاست میں نہ تو کوئی شخص ہلاک ہوا اور نہ ہی ایک بھی گولی چلانی پڑی۔ قابل زکر ہے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے وادی میں5 ماہ سے مسلسل پابندیاں اور انٹرنیٹ معطل ہے ۔ عدالت عظمی میں متعدد افراد نے درخواست دائر کی تھی کہ جموں و کشمیر میں عائد پابندیوں سے متعلق سپریم کورٹ مداخلت کرے اور جلد از جلد وادی کے باشندوں کو پریشانیوں سے نجات دلائے۔بھارتی حکومت نے 5 اگست خصوصی ریاست کا درجہ دلانے والی دفعہ 370 کو منسوخ کردیا تھا۔ جس کے بعد سے وہاں انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔۔جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے لگائی گئی پابندیوں کے خلاف ‘کشمیر ٹائمز ‘ کی ایڈیٹر انورادھا بھسین، کانگریس کے سینیئر رہنما غلام نبی آزاد اور کچھ دوسرے لوگوں کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔غلام نبی آزاد کی جانب سے کورٹ میں پیش سینیئر وکیل کپل سبل نے اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘دفعہ 144 میں قومی سلامتی کا ذکر نہیں ہے، آپ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ یہ قومی ہنگامی صورتحال ہے، حکومت کو اس کے لیے ثبوت دینا ہوگا’۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا تھا کہ ‘نیشنل ایمرجنسی کا بھی عدالتی جائزہ لیا جاسکتا ہے، کیا حکومت اس حکم کو دکھا سکتی ہے، جس کے تحت اس نے دفعہ 144 کو ہٹایا ہے۔کپل سبل نے اپنی بحث میں کہا تھا کہ ‘حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے اسکولز کھلے ہوئے ہیں اور تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن کیا والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہے ہیں، کشمیر میں کاروبار، اسکول، کسان اور سیاحت غرض کہ ہر شعبہ بری طرح متاثر ہے، ایسے میں عدالت عظمی کو قومی سلامتی اور زندگی جینے کے حق میں موازنہ کرنا ہوگا’۔انہوں نے کہا کہ ‘ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کا اگر احتمال ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ انٹرنیٹ سروس بند کر دیں گے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلیل دی تھی کہ انٹرنیٹ کا استعمال شدت پسندوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ ریاست میں دفعہ 370 اور 35 اے کو غیر موثر کئے جانے کے فیصلہ کی آئینی قانونی حیثیت کو چیلنج دینے والی درخواستوں پر آئینی بنچ الگ سے سماعت کر رہی ہے۔