ایوان بالا قائمہ کمیٹی آئی ٹی نے طلبہ کو قرضوں کی فراہمی کا آسان سسٹم بنانے کی سفارش کردی
قابل بچوں کو آگے بڑھنے کا موقع مل سکے۔ اسٹوڈنٹ پیکجز بنائیں جائیں اورانٹرنیٹ ڈیوئسز کیلئے سبسڈی فراہم کی جائے۔ قائمہ کیمیٹی
ملک بھر سے بے شمار طلبہ طالبات نے شکایات کی کہ ان کی رسائی آن لائن کلاسز تک نہیںہے اور کئی علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس کے مسائل بھی درپیش ہیں
کمیٹی کو آگاہی
15 ستمبر تک جامعات کو نہیں کھولا جاسکتاتاہم پروفیشنل ڈگریوں میں داخلوں کیلئے طلباکو انٹری ٹیسٹ کے عمل سے گزرنا ہوگا،ایچ ای سی
یونیورسٹیز میں داخلوں کیلئے تمام جامعات کو گائیڈ لائینز جاری کردی گئی ہیں ۔
کچھ یونیوسٹیوں میں آن لائن کلاسز کیلئے سسٹم موجود ہی نہیں ہے اور مختلف جامعات کے ویسیز نے قائمہ کمیٹی کو ویڈیو لنک کے ذریعے آگاہ کردیا
اسلام آباد(صباح نیوز)ایوان بالاکی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن نے طلبہ کو قرضوں کی فراہمی کا آسان سسٹم بنانے کی سفارش کردی تاکہ قابل بچوں کو آگے بڑھنے کا موقع مل سکے۔ اسٹوڈنٹ پیکجز بنائیں جائیں اورانٹرنیٹ ڈیوئسز کیلئے سبسڈی فراہم کی جائے۔ قائمہ کیمیٹی کو ملک بھر سے بے شمار طلبہ طالبات نے شکایات کی کہ ان کی رسائی آن لائن کلاسز تک نہیںہے اور کئی علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس کے مسائل بھی درپیش ہیں کمیٹی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ 15 ستمبر تک جامعات کو نہیں کھولا جاسکتاتاہم پروفیشنل ڈگریوں میں داخلوں کیلئے طلباکو انٹری ٹیسٹ کے عمل سے گزرنا ہوگا،یونیورسٹیز میں داخلوں کیلئے تمام جامعات کو گائیڈ لائینز جاری کردی گئی ہیں ۔کچھ یونیوسٹیوں میں آن لائن کلاسز کیلئے سسٹم موجود ہی نہیں ہے اور مختلف جامعات کے ویسیز نے قائمہ کمیٹی کو ویڈیو لنک کے ذریعے آگاہ کردیا۔جمعرات کو کمیٹیکا اجلاس چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کانفرنس روم میں ہوا۔ آن لائن کلاسزاور انٹرنیٹ سروسز کے حوالے سے درپیش مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔چیئر پرسن کمیٹی نے کہا کہ محدود وسائل میں کسطرح زیادہ سے زیادہ ملک اور قوم کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے اس کیلئے ملکر موثر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔ہمارے بچے اور نوجوان نسل اس ملک کا مستقبل ہیں ان کی تعلیم کیلئے اقدامات اٹھانا ہم سب کا فرض ہے کرونا حالات کی وجہ سے ایک جامع حکمت عملی اور موثر منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے ۔ طلبعلموں کی آن لائن تعلیم و تربیت کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن ، وزارت تعلیم ، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ملک بھر کے جامعات سے تفصیلی مشاورت کی جا رہی ہے کہ کسطرح طلبعلموں کی آن لائن تعلیم اور انٹرنیٹ کے حوالے سے درپیش مسائل کو موثر انداز میں حل کیا جا سکے۔ اسکول اور کالج کی سطح پر آن لائن تعلیم اور انٹرنیٹ کے حوالے سے بے شمار مسائل ہیں ۔سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبعلموں کے والدین آن لائن کلاسز کیلئے ضروری آلات خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ ہی ملک میں تمام بچوں کی انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ چیئرمین ایچ ای سی نے کمیٹی کو بتایا کہ ایچ ای سی کی واضع پالیسی رہی ہے کہ تعلیم میں کم سے کم حرج آئے ۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے پروفیسرز کو آن لائن کلاسوں کے طریقہ کار معلوم نہیں تھا۔ 44ہزار پروفیسرز کو 2 ماہ میں تربیت فراہم کی ہے ۔ یونیورسٹیوں میں آن لائن کا سسٹم موجود نہیں تھا ان کو گائیڈ لائینز جاری کی گئیں ہیں اور 88 فیصد جامعات میں آن لائن کلاسز کا آغاز ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی طلبانے شکایت کی کہ ان کی رسائی آن لائن کلاسز تک نہیںہے اور کئی علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس کا مسئلہ بھی درپیش ہیں۔ جامعات کو بچوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کو کہا گیا ہے اور حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ دیہی اور پسماندہ علاقوں کیلئے تعلیمی رسائی کیلئے انٹرنیٹ سروسز اور اس کے معیار کیلئے اقدام اٹھائیں جائیں اور مختلف علاقوں میں ڈیٹا سینٹرز بنانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی کام کمپنیوں نے ہماری درخواست پر انٹرنیٹ پیکجز کے نرخ کم کئے ہیں اور ریوالونگ فنڈ کے ذریعے انٹرنیٹ ڈیوائسز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اعلی تعلیمی کمیشن اس وقت وزارت تعلیم اور یو ایس ایف کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں اور اسٹوڈنٹ پیکجز بنائیں جائیں اورانٹرنیٹ ڈیوئسز کیلئے سبسڈی فراہم کی جائے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ اعلی تعلیمی کمیشن کے فنڈز کو بڑھانا چاہیے لائق بچوں کیلئے ایچ ای سی کو تعاون کرنا چاہیے۔ ہر طبقے کے بچے کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے مساوی موقع ملنا چاہئے ۔ اسٹوڈنٹ لون کا سسٹم بنایا جائے جو نہایت آسان ہو تا کہ قابل بچوں کو آگے بڑھنے کا موقع مل سکے ۔ انہوں نے کہا کہ فیس کا جو موجودہ اسٹرکچر بہت زیادہ ہے جس بندے کے 3 بچے پڑھ رہے ہوں اس کیلئے مشکل ہے کہ ہر بچے کو آن لائن کی سہولت اور ضروری الات فراہم کرے۔ حکومت سٹوڈنٹس کو قرضہ دے اور طلبعلم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایچ ای سی کو واپس کریں۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے سٹوڈنٹس کو اگلی کلاس میں پروموٹ کیا گیاہے اب یہ بتایا جائے پروفیشنل ڈگریوں کیلئے داخلے میں یہ طلباکیا کریں گے۔ چیئرمین ایچ ای سی نے کہا کہ 15 ستمبر تک تعلیمی اداروں کو نہیں کھولا جاسکتا اور پروفیشنل ڈگریوں میں داخلوں کیلئے طلباکو انٹری ٹیسٹ کے عمل سے گزرنا ہوگا۔یونیورسٹیز میں داخلوں کیلئے تمام جامعات کو گائیڈ لائینز جاری کردی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی جو بھی پالیسی مرتب کرتا ہے وہ ویب سائٹ پر ڈال دی جا تی ہے تاکہ ہر کوئی اس سے مستفید ہو سکے۔ایڈیشنل سیکرٹری وزارت تعلیم نے کہا کہ بلوچستان، جی بی، قبائلی اضلاع، دیگر علاقوں میں مسائل موجود ہیں۔ ڈیٹا سینٹر بنائے جائیں گے تو وہاں ہر سٹوڈنٹ کی رسائی ہوگی ۔ ایچ ای سی، صوبے اور پی ٹی اے کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیاہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کچھ یونیوسٹیوں میں آن لائن کلاسز کیلئے سسٹم موجود نہیں ہے اور مختلف جامعات کے ویسیز نے قائمہ کمیٹی کو ویڈیو لنک کے ذریعے آگاہ کیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈ میں اضافہ کیا جائے تا کہ وہ یونیوسٹیوں کوگرنٹ فراہم کر سکیں۔ کچھ جامعات کے پاس تنخواہیں دینے کے لئے فنڈز بھی نہیں جس پر چیئر پرسن و اراکین کمیٹی نے تشویش کا اطہار کرتے ہوئے کہا کہ ایچ ای سی کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے تا کہ جامعات کے مسائل کو حل کیا جا سکے ۔ ملک و قوم کا مستقبل نوجوان نسل کی تعلیم سے ہے اگر بنیاد ہی ٹھیک نہیں ہو گی تو عمارت مضبوط کسطرح ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ مختصر مدتی موثر منصوبہ بندی کرنا ہوگی ۔ وائس چانسلر بلتستان یونیورسٹی نے کہا کہ یونیورسٹی آف بلتستان میں 13 مارچ سے آن لائن کلاسز ہورہی ہیں اور آن لائن امتحانات کا آغاز بھی یونیورسٹی میں ہوچکا ہے۔ وائس چانسلر قراقرم یونیورسٹی گلگت بلتستان میں سکول اور کالجز کے سٹوڈنٹس کو بھی سہولیات دی جارہی ہیں، ہماری آن لائن کلاسز کا آغاز پہلے دن سے بہتر طریقے چل رہا ہے۔ وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی نے کہا کہ ہمارے پاس تنخواہوں دینے کے پیسے نہیں ہیں اس عید پر ملازمین کو تنخواہیں ملے گی یا نہیں۔وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی نے کہا کہ ہم پشاور یونیورسٹی میں عید پر اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دے سکتے۔ ہمارے پروفیسرز کورونا کا شکار بھی ہوئے ہیں آج بھی آن لائن کلاسز ہورہی ہیں۔ مختلف جامعات کے دیگر وائس جانسلرز نے قائمہ کمیٹی کو درپیش مسائل بارے آگاہ کیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت تعلیم نے کہا کہ عالمی بینک کا 250 ملین ڈالرز کا منصوبہ ہے جو کرونا کے دوران تعلیم کیلئے خرچ کیا جائے گا ۔ پلاننگ کمیشن نے 230 ملین ڈالرز کیلئے صوبوں سے تجاویز بھی لے لی ہیں۔ ورلڈ بینک نے 200 ملین ڈالر کا رعایتی شرح سود پر قرض فراہم کیا ہے اور 30 ملین ڈالرز کی اس میں ڈونرز سے کی کنٹری بیوشن ہوگی۔چیئر پرسن قائمہ کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ برانڈ بینڈ سروسز پر 32 فیصد ٹیکس لگایا جاتا ہے اس کو کم کیا جائے اور انٹر نیٹ ڈیوائسز پر ڈیوٹی بھی کم کیا جائے تا کہ عام آدمی خریدنے کے قابل ہو سکے ۔چیئر پرسن کمیٹی نے چیئرمین ایف بی آر اور چیئرمین پی ٹی اے مل بیٹھ کر معاملے کو دیکھنے کی ہدایت کر دی ۔ انہوں نے کہا کہ چند ارب روپے ہم ٹیکس لے رہے ہیں جس سے ریونیو میں معمولی اضافہ ہوتا ہے مگر اس کا نقصان بہت زیاد ہ ہے۔ یو ایس ایف حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی سہولت دینے کی کوشش ہورہی ہے اور صوبہ بلوچستان کے 6اضلاع میں پی ٹی سی ایل کو ہدایت کی ہے کہ براڈ بینڈ کی رسائی بنائی جائے ۔ گلگت بلتستان میں ایس سی او جی بی حکومت کے ساتھ ہاٹ سپاٹ بنا رہا ہے اور بلتستان میں چار سینٹر بنا ئے گئے ہیں ۔ طویل لمدتی منصوبوں کے تحت انٹرنیٹ کے معیار کو دس گنا بہتر بنایا جائے گا پہلے معیار 2004میں بنے تھے اب لائسنس کی تجدید کیلئے آنے والی کمپنیوں کو نئے معیار دیئے جا رہے ہیں ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ڈیواسز کی قیمتیں کم کرنے کیلئے ٹیکسوں کو کم یا ختم کرنا ہو گا۔ چیئر پرسن کمیٹی نے کہا کہ معاملات کی بہتری کیلئے انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ متعلقہ ادارے آٹ آف بکس کام کریں اور تجاویز تیار کریں اگر کہیں قانونی سازی کی ضرورت ہے تو پارلیمنٹ اس کے لئے تیار ہے بچوں کی تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور موجودہ حالات کے تناظر میں آن لائن سسٹم کے ذریعے تعلیم ناگزیر ہو چکی ہے ۔ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ جن جامعات کے پاس آن لائن کا نظام موجود نہیں ہے ان کے متبادل پروگرام بنایا جائے اور بلوچستان کے بے شمار مقامات پر انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے اس کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئے۔ سینیٹر ثناجمالی نے کہا کہ صوبہ بلوچستان اور خاص طور پر قلات اور خضدار کی بچیوں کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو خصوصی اقدامات کرنے چاہئے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان صحت اور تعلیم کے شعبے میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور تعلیم کے بجٹ میں مجموعی طور پر اضافہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آفس اور پاک فوج کے بجٹ پر کٹ لگایا گیا ہے مگر ایچ ای سی کے بجٹ پر کوئی کٹ نہیں لگایا گیا ۔ ملک میں تعلیم کے فروغ کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔
#/S