بھارتی حکومت نے مزید 47 چینی ایپس پر پابندی عائد کردی
نئی دہلی (صباح نیوز)بھارتی حکومت گزشتہ ماہ 59 چینی ایپلی کیشنز کو بند کرنے کے بعد مزید 47 چینی ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کردی۔واضح رہے کہ بھارت نے گزشتہ ماہ کے آخر میں معروف ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک سمیت 59 ایپلی کیشنز کو ملکی خودمختاری، سالمیت، دفاع اور امن و امان کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔تاہم اس مرتبہ بھارت نے مزید 47 ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کی ہیں جن کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ یہ گزشتہ بند کی جانے والی ایپلی کیشنز کی کلون ایپلی کیشنز تھی۔بھارتی ٹی وی این ڈی ٹی کی رپورٹ کے مطابق پابندی کا سامنا کرنے والی ان نئی ایپلی کیشنز کی فہرست کا اعلان کیا جانا ابھی باقی ہے۔ رپورٹ میں انڈیا ٹوڈے ٹی وی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ سرکاری کا کہنا تھا کہ حکومت نے مزید 250 ایپلی کیشنز کی فہرست تیار کی ہے جن کا صارفین کی پرائیویسی یا قومی سلامتی کی خلاف ورزی کے حوالے سے معائنہ کیا جارہا ہے۔کہا جارہا ہے کہ دنیا کا معروف گیم پب جی بھی اس نئی پابندی کا سامنا کرنے والے ایپلی کیشنز میں شامل ہے۔واضح رہے کہ بھارت نے چینی ایپلی کیشنز کو بند کرنے کا فیصلہ چین اور بھارت کے درمیان لداخ میں حالیہ کشیدگی کے بعد لیا اور یہ چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف کیا جانے والا اب تک کا سب سے بڑا اقدام قرار دیا جارہا ہے۔بھارتی خبر رساں ادارے انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے ایپلی کیشنز بند کرنے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ان ایپلی کیشنز میں بھارتی شہریوں کے ڈیٹا سیکیورٹی اور پرائیویسی کے تحفظ کے حوالے سے خدشات موجود تھے، اس کے علاوہ ملکی خودمختاری اور سیکیورٹی کے لیے بھی خطرات کے خدشات سامنے آئے، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو متعدد ذرائع بشمول متعدد رپورٹس میں لاتعداد شکایات ملی تھیں، جن میں اینڈرائیڈ اور آئی او ایس پلیٹ فارمز پر موجود مختلف موبائل ایپس کے غلط استعمال کو رپورٹ کیا گیا تھا، جو صارفین کا ڈیٹا چوری اور غیرقانونی طریقے سے بھارت سے باہر سرورز پر منتقل کررہی تھیں’۔بھارتی وزارت خارجہ کے زیر تحت انڈین سائبر کرائم کو آرڈینیٹ سینٹر نے ان ایپس کو بلاک کرنے کی سفارشات وزارت آئی ٹی کو بھیجی تھیں۔بیان میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ‘وزارت کے سامنے متعدد نمائندگان نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ مخصوص ایپس کو کام جاری رکھنے کی اجازت دینے سے شہریوں کے ڈیٹا کی سیکیورٹی اور پرائیویسی خطرے میں پڑسکتی ہے’۔2015 سے 2019 کے دوران چینی کمپنیوں بشمول علی بابا اور دیگر نے بھارتی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں ساڑھے 5 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی۔واضح رہے کہ بھارت اور چین کے فوجیوں کے مابین 15 جون کو ہونے والے تصادم میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔امریکا کی خلائی ٹیکنالوجی کمپنی میکسار ٹیکنالوجیز کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں دکھایا گیا تھا کہ وادی گلوان کے ساتھ چینی تنصیبات نظر آرہی ہیں۔آسٹریلیا کے اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مصنوعی سیارہ ڈیٹا کے ماہر نیتھن روسر نے کہا تھا کہ اس تعمیر سے پتا چلتا ہے کہ کشیدگی میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔یہ وادی گلوان اور دریائے شیوک کے سنگم پر شروع ہوتی ہے اور دونوں فریقین جس لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو باضابطہ تسلیم کرتے ہیں، وادی میں ان دریاں کے سنگم کے مشرق میں واقع ہے۔چین اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ میں بھارت کے 20 فوجی مارے گئے تھے اور یہ 45 سال کے دوران دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سب سے خونریز جھڑپ ہے۔ماہرین کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات انتہائی کم ہیں البتہ کشیدگی میں کمی میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔چین دعوی کرتا ہے کہ اس کا 90 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ بھارت میں واقع ہے جس کے جواب میں بھارت کا دعوی ہے کہ اس کا 38 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ چین کی حدود میں اکسائی چن کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے
#/S