Site icon Teleco Alert

کسی قانون یا لائسنس کی شرائط کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتے… وی آر جی کی وضاحت

آسلام آباد (ویب ڈیسک )

یہ پریس ریلیز پی ٹی اے کی ہدایت کے مطابق 14اگست 2020کو پی ٹی اے کی جاری کردی پریس ریلیز کے جواب میں جاری کی جارہی ہے۔
ہم آسان موبائل اکاؤنٹ اسکیم کے لیے پی ٹی اے کے تعاون اور سرپرستی کے معترف ہیں اور اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ پی ٹی اے کی جانب سے آغاز کار یا Commencement کا حتمی سرٹیفکیٹ جاری ہونا ابھی باقی ہے۔ ہم بینکاری نظام سے غیر وابستہ غریب عام پاکستانیوں کی مدد کررہے ہیں اور ملک کے غریب عوام کی مالیاتی شمولیت کے لیے حکومت پاکستان اور محترم وزیر اعظم کے وژن میں معاون کردار ادا کررہے ہیں۔ ہماری منزل اور راستہ واضح اور مشن مقدس ہے۔ اس مقدس مشن میں ہم کسی قانون یا لائسنس کی شرائط کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم نے ہمیشہ پی ٹی اے کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے اور ہم آئندہ بھی اس مقدس مشن کی تکمیل کے لیے اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔

ہم پی ٹی اے کی جانب سے پاکستان میں Commencement Certificate جاری ہوتے ہی اپنی کمرشل سروسز کے اجرا کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ چوں کہ ہمیں تاحال پی ٹی اے کی جانب سے Commencement Certificate جاری نہیں ہوا ہے اس لیے نہ ہی ہم نے کمرشل سروسز شروع کی ہیں اور نہ ہی اپنے کاروباری شراکت داروں (سی ایم اوز اور بینکوں) یا صارفین سے اے ایم اے اسکیم کے لیے کوئی چارجز وصول کیے ہیں۔

وی آر جی نے پی ٹی اے کی ہدایت کے مطابق 8جون 2020کو ایس سی او اور جاز کے ساتھ ایک کاروباری(کمرشل) معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں اور عنقریب ایسا ہی ایک معاہدہ زونگ، ٹیلی نار اور یوفون کے ساتھ طے ہونے والا ہے۔ اس کے علاوہ کمرشل بینکوں کے ساتھ بھی معاہدے طے پائے جن میں بینک الفلاح لمیٹڈ، ٹیلی نار مائیکروفنانس بینک، موبل انک مائیکروفنانس بینک، یو مائیکروفنانس بینک، فنکا مائیکروفنانس بینک، حبیب بینک، یونائیٹڈ بینک، میزان بینک، عسکری بینک، ایم سی بی بینک، جے ایس بینک، فرسٹ ایم یاف بینک اور الائیڈ بینک لمیٹیڈ کے ساتھ معاہدے ہوئے۔
یہاں اپنی تیاری کے حوالے سے یہ پس منظر واضح کرنے کے لیے کچھ حقائق بیان کرنا ضروری ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) کی جانب سے 16جنوری 2018اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 17اپریل 2017کو ٹی پی ایس پی لائسنس ملا۔ 3مارچ 2020 کو ہم نے کام کے آغاز کے اجازت نامے یا commencement certificate کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے رجوع کیا۔ بعدازاں اسٹیٹ بینک کی 19 دسمبر 2019کو ہونے والی اسٹریس ٹیسٹنگ نمبر 1، 26دسمبر کو ہونے والی اسٹریس ٹیسٹنگ نمبر 2، 3مارچ 2020کو اسٹریس ٹیسٹنگ 3اور 10مارچ 2020کو اسٹریس ٹیسٹنگ 4کے بعد ہمیں اسٹیٹ بینک کی جانب سے حتمی اجازت نامہ / Commencement Certificate جاری کیا گیا۔ پی ٹی اے نے آغاز کار کے سرٹیفکیٹ کے لیے یکم جنوری 2020تا 8جنوری 2020جانچ پڑتال مکمل کرکے 10جنوری 2020کو رپورٹ مرتب کی۔ اس بنیاد پر ہم پی ٹی اے سے توقع کرتے تھے کہ یا تو وہ ہمیں Commencement Certificate جاری کرے یا مزید جانچ پڑتال درکار ہونے کی صورت میں اس سلسلے میں مزید جانچ پڑتال کرے۔ اس وقت سے ہم مسلسل پی ٹی اے سے Commencement Certificate کے اجرا کے لیے درخواست کرتے رہے اور اس سلسلے میں پی ٹی اے سے ملاقات کے لیے آخری بار باضابطہ رابطہ 4اگست 2020کو کیا گیا اور ڈی جی لائسنسگ سے ملاقات کے لیے آخری بار 10اگست 2020کو باضابطہ درخواست کی گئی۔ پی ٹی اے نے ہمیں کسی اضافی معلومات یا کارروائی کے سلسلے میں تاحال کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا۔

جہاں تک 14اگست 2020کو وی آر جی کے جاری کردہ اشتہار کا معاملہ ہے تو یہ صرف ”یومِ آزادی“ کے موقعے پر عوامی آگاہی فراہم کرنے کے لیے جاری کیا گیا۔ پوری نیک نیتی کے ساتھ اس دن یہ اشتہار جاری کرنے کا ہمارا صرف یہ مقصد تھا کہ ہمیں عوامی آگاہی کے لیے اس موقعے کا اگلے برس تک انتظار کرنا پڑتا۔ ہم صرف عوام کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم اپنی کمرشل سروسز اور اے ایم اے اسکیم کی صورت میں انہیں ایک تحفہ دینا چاہتے ہیں جس کا انہیں برسوں سے انتظار ہے تاہم یہ تحفہ ہم انہیں اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک پی ٹی اے ہمیں اس کی باضابطہ اجازت نہیں دیتا۔
ہم نے اپنے اشتہار میں کسی طور پر یہ اعلان نہیں کیا کہ ہم پی ٹی اے کے Commencement Certificate کے بغیر (پاکستان یا آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان یا پاکستان میں) اپنی کمرشل سروسز کا آغاز کررہے ہیں۔ ہم نے سوچ سمجھ کر اشتہار میں انگریزی الفاظ “Launch” اور “Commencement of operations” سے گریز کیا اور صرف کمرشل طور پر اپنے کام کے آغاز کی تیاری کا تذکرہ کیا۔ پی ٹی اے بھی اس بات کا اعتراف کرے گی کہ جب سے ہم نے پی ٹی اے ہی کی ہدایت پر اپنا پائلٹ فیز شروع کیا اس کے بعد سے پاکستان کے عوام1لاکھ 8ہزار 280 آسان موبائل اکاؤنٹ اکاؤنٹ کھلوا چکے ہیں اور ان پر 32لاکھ سے زائد ٹرانزیکشنز بلامعاوضہ انجام دی جاچکی ہیں۔ وی آر جی غریب عوام کی مدد اور قوانین اور لائسنس شرائط کے مطابق پی ٹی اے کی تسلی کے لیے ان تمام سرگرمیوں کے اخراجات برداشت کررہا ہے۔ وی آر جی نے ان خدمات اور ٹرانزیکشنز کے عوض اپنے کاروباری شراکت داروں سے کوئی چارجز وصول نہیں کیے۔
دریں اثنا پی ٹی اے کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی اور عام عوام اور ہمارے کاروباری شراکت داروں کو اے ایم اے کا استعمال ترک کرنا تجویز کیا گیا ہے جب کہ اس سلسلے میں ہمیں اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا اور بیان جاری کرنے سے قبل پی ٹی اے نے ہمیں اپنی ہی تسلیم شدہ ساڑھے تین گھنٹے کی مہلت بھی نہیں دی۔ اس اعتبار سے پی ٹی اے کا یہ اقدام نہ صرف خلافِ قانون ہے بلکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ، 1996اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 10-A کی خلاف ورزی ہے اور اس کے ساتھ سماجی اقدار و روایات کے بھی برخلاف ہے۔ پی ٹی اے نے ہمیں اپنا مؤقف پیش کرنے کی مہلت دیے بغیر اور ہمارا جواب سنے بغیر ہی ہمیں ملزم ٹھہرایا ہے۔ ہم پی ٹی اے کی جانب سے جلد بازی میں کیے گئے اس غیر دانش مندانہ اقدام پر سوال اٹھانے اور اسے مسترد کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

پی ٹی اے کی جاری کردہ پریس ریلیز میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی نشاندہی کی گئی ہے، ہم نے اپنے اشتہار میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی نشان دہی نہیں کی، ہم نے صرف ایس سی او کے ساتھ اپنی انٹیگریشن کا تذکرہ کیا تھا جو کسی صورت بھی خلاف ضابطہ نہیں کیوں کہ ہم اے ایم اے اسکیم کی کوئی بھی سروس آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں پی ٹی اے کی اجازت/لائسنس کے بغیر شروع نہیں کرسکتے۔

اس حوالے سے شکوک و شبہا ت اور کسی بھی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ہم یہاں پی ٹی اے کی جانب سے 8جون 2020کو جاری کردہ لیٹر نمبر F. No.15-107/18 (CA)/PTN326 کا حوالہ دے رہے ہیں۔ یہ لیٹر تمام سی ایم او زکے نام تھا اور اس کے آپریشنل حصے میں وضاحت کے ساتھ لکھا گیا تھا ”مطلع کیا جاتا ہے کہ وی آر جی نے اپنے لائسنس کی شق 1.4کے مطابق اپنے یو ایس ایس ڈی پلیٹ فورم پرعمل درآمد کیا ہے۔ اس پلیٹ فورم کا سی ایم اوز سے منسلک ہونا ضروری ہے۔ وی آر جی پلیٹ فورم تکنیکی سروسز کی انجام دہیی کے لیے اے ایم اے اسکیم کے ساتھ متعدد بینک منسلک ہوچکے ہیں۔ ہم نے اے ایم اے اسکیم /لائسنس شدہ ٹی پی ایس پی سروسز پر پائلٹ پراجیکٹ جا جائزہ لیا ہے، اور پی ٹی اے کی نظر میں وی آر جی/ٹی پی ایس پی چوں کہ اپنا یو ایس ایس ڈی پلیٹ فورم تشکیل دے چکی ہے اس لیے سی ایم اوز کے ساتھ کمرشل انتظامات کرسکتی ہے۔ مزید یہ کہ ٹی پی ایس پیز اور سی ایم اوز کے لیے ضروری ہے کہQoS KPls کے تقاضوں کے مطابق اپنی کارکردگی یقینی بنائیں۔ اس کے ساتھ ہی سی ایم اوز سے درخواست ہے کہ کمرشل آپریشز کے لیے ٹی پی یس پیز کے ساتھ اپنے معاہدات کوجتنا جلد ہوسکے حتمی شکل دیں۔ یہ اتھارٹی کی منظوری کے ساتھ جاری کیا جارہا ہے۔“

باوجود اس کے کہ پی ٹی اے نے عجلت میں اپنی گمراہ کُن پریس ریلیز جاری کی اور اپنے ایک لائسنس یافتہ (وی آرجی) کی ساکھ کو خطرے میں ڈالاتاہم وی آرجی نے پی ٹی اے پر کسی ”مفاد پرستی“ کا الزام لگائے بغیر اس کا جواب باوقار انداز میں انتہائی ذمے داری سے دیا ہے۔ہم پی ٹی اے کو یقین دلاتے ہیں کہ اس کی دی گئی مہلت(جو اتھارٹی کی تاریخ میں دی گئی مختصر ترین دورانیے کی مہلت ہے) میں اپنا جواب دے رہے ہیں کہ وی آرجی پی ٹی اے کی جانب سے Commencement Certificate کے اجرا کے بغیر اپنے کمرشل آپریشنز شروع نہیں کریں گے۔ اور پی ٹی اے کے شرائط و ضوابط تسلی بخش انداز میں پورے ہونے تک بھرپور تعاون جاری رکھیں گے۔

یہ اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ٹیلی کام قوانین کے مطابق پی ٹی اے پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کے استعمال کنندگان کے مفادات اور اپنے لائسنس یافتگان کا تحفظ یقینی بنانے کی پابند ہے، وی آر جی کے نزدیک اس کے معاملے میں پی ٹی اے اپنی یہ قانون ذمے داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

Virtual Remittance Gateway – VRG Media Clarification – Urdu

Exit mobile version