قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی آئی ٹی کا سائبر کرائم کے قوانین کا موجودہ حالات کے مطابق جائزہ لینے کا فیصلہ
الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ 2016 کو یا تو صحیح نافذ نہیں کیا جارہا تھا
قانون میں موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق ترامیم کی ضرورت ہے۔ کمیٹی
اگلے اجلاس میں سائبر کرائمز کے بارے میں نیشنل سنٹر کے تصور کے قیام پر تبادلہ خیال کا فیصلہ
سائبر کرائمز سے متعلق قومی مرکز میں تجویز کردہ علم کی رابطہ کاری اور منتقلی کے فرائض موجود نہیں ہیں
سائبر جرائم کی شکایات کو دور کرنے کے لئے قانونی طریقہ کار اور قوانین پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ قائمہ کمیٹی
اسلام آباد (ویب ڈیسک )قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹکنالوجی و ٹیلی مواصلات نے سائبر جرائم سے متعلق قوانین کو موجودہ حالات کے مطابق لانے کے لیے ان کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمیٹی کے مطابق الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ 2016 کو یا تو صحیح نافذ نہیں کیا جارہا تھا یا اسے موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق کرنے کے لئے ترامیم کی ضرورت ہے۔ کمیٹی نے اپنے اگلے اجلاس میں سائبر کرائمز کے بارے میں نیشنل سنٹر کے تصور کے قیام پر تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ کیا سائبر کرائمز سے متعلق قومی مرکز میں تجویز کردہ علم کی رابطہ کاری اور منتقلی کے فرائض موجود نہیں ہیں۔ کمیٹی کی رائے ہے کہ سائبر جرائم کی بڑھتی ہوئی واقعات اور ان شکایات کو دور کرنے کے لئے قانونی طریقہ کار اور قوانین پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹکنالوجی اینڈ ٹیلی مواصلات کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں چیرمین علی خان جدون کی زیر صدارت ہوا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سائبر جرائم سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو موصولہ عوامی شکایات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ حل کی رفتار بہت سست تھی جس کا سبب یا تو تفتیشی ایجنسی کی صلاحیت کے معاملات ھیں یا قانون میں سقم
ہے۔ کمیٹی نے دو ممبران کی درج شکایات پر ایف آئی آے کی تحقیقات میں سست رفتاری پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ کمیٹی کے ممبران کو شکایات کے اندراج کے لیے نہایت پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑا۔ارکان نے کہا ہے کہ اگر کمیٹی کے ممبران کو پارلیمنٹیرین ہونے کے ناطے ان مسائل سے گزرنا پڑتا ہے تو ایک عام شکایت کندہ کو کتنی تکلیف سے گزرنا پڑتا ھو گا۔ کمیٹی نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ اگلے اجلاس میں دونوں ممبران کی شکایات سے متعلق پیش رفت کمیٹی کو پیش کریں۔ کمیٹی نے یہ بھی قراردیا ہے کہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ 2016 کو یا تو صحیح نافذ نہیں کیا جارہا تھا یا اسے موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق کرنے کے لئے ترامیم کی ضرورت ہے۔ کمیٹی نے اپنے اگلے اجلاس میں سائبر کرائمز کے بارے میں نیشنل سنٹر کے تصور کے قیام پر تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ نیشنل سینٹر برائے سائبر سیکیورٹی ، ایچ ای سی اور پلاننگ کمیشن کا مشترکہ آر اینڈ ڈی پروجیکٹ 2018 میں ایئر یونیورسٹی میں پہلے ہی قائم کیا جا چکا ہے اور وہ سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے تحقیق فراہم کررہا ہے۔ تاہم کمیٹی نے کہا کہ مذکورہ مرکز ایک آر اینڈ ڈی سنٹر ہے اور سائبر کرائمز سے متعلق قومی مرکز میں تجویز کردہ علم کی رابطہ کاری اور منتقلی کے فرائض موجود نہیں ہیں۔ کمیٹی نے مزید کہا کہ بڑھتے ہوئے سائبر جرائم اور سائبر سیکیورٹی کے امور کے تناظر میں ، سائبر سیکیورٹی کے موجودہ نیشنل سینٹر میں ہم آہنگی کو شامل کرنا اور معلومات کی منتقلی سے سائبر سیکیورٹی کو تقویت ملے گی۔ کمیٹی نے سائبر کرائمز پر نیشنل سینٹر کے قیام پر وزارت امور خارجہ کو کنسیپٹ پیپر کی تیاری اور اس پر وزارت دفاع ، داخلہ ، آئی بی اور نیکٹا کی رائے کو سراہا۔ کمیٹی نے اپنے گذشتہ اجلاس میں دی گئی سفارش پر عمل درآمد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ، وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی اور ٹیلی مواصلات کے ذریعہ کئے جانے والے DIGISKILL پروگرام کو سراہا۔ کمیٹی نے کہا کہ یہ پروگرام نوجوانوں میں آئی ٹی کی صلاحیتوں کو بڑھانے اور روزگار کے مواقعے فراھم کرنے میں مددگار ہوگا۔ کمیٹی نے ٹیلیفون انڈسٹری آف پاکستان کے ملازمین اور پنشنرز کو حکومتی احکامات کے باوجود ایڈہاک ریلیف الانس -2018 کی ٹی آئی پی کے اگلے بورڈ اجلاس میں منظوری پر سنجیدگی سے غور کرنے کو کہا ۔ سکریٹری نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ٹیلیفون انڈسٹری کے نقصانات کی وجہ حکومت کی نجکاری کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ تاہم ، سی پیک کے فعال ہونے کے ساتھ پیدا ہونے والی متوقع متعدد معاشی سرگرمیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ، یہ صنعت اپنی پیداواری سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرسکتی ہے لہذا اسے نجکاری کی فہرست سے خارج کردیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ٹی آئی پی کا بی او ڈی اپنی اگلی میٹنگ میں اس پر غور کرے گا اور کوئی مالی حالات کا جائزہ لینے کے بعد ملازمین کو الانس دیا جائے گا۔
سوشل میڈیا رولز کابینہ سے نوٹیفائی نہیں ہوئے،حکام
رولز نوٹیفائی ہونے کے بعد تمام سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں دفاترکھولنے کی پابند ہو ں گی ،سیکرٹری آئی ٹی
سوشل میڈیا فورمز ڈیٹا فراہم نہیں کرتے،سائبر اسپیس کو لوگوں کیلئے محفوظ بنانے کیلئے کام کررہے ہیں،ایف آئی اے
متاثرین ایف آئی اے کے چکر لگارہے ہیں مگر سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزت اچھالنے والوں کو پروا تک نہیں ،ارکان کمیٹی
سائبر کرائم میں زیادہ نشانہ خواتین کو بنایا جاتا ہے، ایف اے پاس خواتین انویسٹی گیٹرز بھی موجود نہیں
اگر ٹوئٹر اور فیس بک پاکستان میں دفاتر نہیں کھولتے تو کیا انھیں بند کر دیا جائے گا،ناز بلوچ
ایک شخص بیرون ملک سے آتا ہے اور اسے پورے ڈیٹا بیس تک رسائی دے دی جاتی ہے
تانیہ ایدروس پاکستان آئیں اور چلی گئیں اب معلوم ہوا کہ وہ پاکستانی نیشنل نہیں
#/H
آئٹم نمبر…57
اسلام آباد(صباح نیوز)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کو حکام نے بتایاکہ سوشل میڈیا رولز کابینہ سے نوٹیفائی نہیں ہوئے۔رولز نوٹیفائی ہونے کے بعد تمام سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں دفاترکھولنے کی پابند ہوں گی،سوشل میڈیا فورمز ڈیٹا فراہم نہیں کرتے،سائبر اسپیس کو لوگوں کیلئے محفوظ بنانے کیلئے کام کررہے ہیں۔ارکان کمیٹی نے کہاکہ سوشل میڈیا پر نشانہ بننے والے تو ایف آئی اے کے چکر لگارہے ہیں مگر سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزت اچھالنے والوں کو پروا تک نہیں،سائبر کرائم میں زیادہ نشانہ خواتین کو بنایا جاتا ہے ایف اے پاس خواتین انویسٹی گیٹرز بھی موجود نہیں۔جمعرات کوقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کا ا جلاس چیئرمین علی خان جدون کی صدارت میںہوا۔اجلاس میں ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم عبد القادر قمر نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔ عبد القادر قمر نے کمیٹی کوبتایاکہ2019میں سائبر کرائم سے متعلق 19000شکایات موصول ہوئیں۔سال 2020 میں اب تک سائبر کرائم کی45000 شکایات موصول ہو چکی ہیں،تمام سوشل میڈیا فورمز بیرون ملک ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا معاہدہ موجود نہیں ہے ہمارے قوانین کے مطابق سوشل میڈیا فورمز ڈیٹا فراہم نہیں کرتے،سائبر اسپیس کو لوگوں کیلئے محفوظ بنانے کیلئے کام کررہے ہیں۔ ارکین کمیٹی نے کہاکہ ایف آئی کا تفتیش نظام بہت کمزور ہے۔سوشل میڈیا پر نشانہ بننے والے تو ایف آئی اے کے چکر لگارہے ہیں مگر سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزت اچھالنے والوں کو پروا تک نہیں۔سائبر کرائم تیزی سے بڑھ رہا ہے، ایف آئی اے سائبر کرائم کے پاس شکایات زیادہ ہیں اور وسائل کم ہیں، اب تو ایف آئی اے کو شکایت کرنا بھی وقت کا ضیاع بن چکا ہے، سائبر کرائم میں زیادہ نشانہ خواتین کو بنایا جاتا ہے ایف اے پاس خواتین انویسٹی گیٹرز بھی موجود نہیں۔سیکرٹری آئی ٹی نے کہاکہ سائبر کرائم کے حوالے سے ایف آئی کا روز بدلنے والی ٹیکنالوجی کے ساتھ وا سطہ پڑتا ہے۔ وزرات داخلہ سے کہا جائے کہ ایف آئی اے کو ٹیکنالوجی کے حوالے سے بااختیار بنایا جائے۔سوشل میڈیا رولز گورنمنٹ نے نوٹیفائی کئے تھے، سوشل میڈیا رولز پر بہت سے اعتراضات آئے۔وزیراعظم نے سوشل میڈیا رولز پر عمل درآمد روک دیا گیا۔سوشل میڈیا رولز کے حوالے سے مشاورتی کمیٹی چیئرمین پی ٹی اے کی سربراہی میں بنائی گئی۔کمیٹی نے سوشل میڈیا رولز کے حوالے سے مشاورت مکمل کر لی ہے۔چیئرمین پی ٹی اے سوشل میڈیا رولز پر مشاورتی رپورٹ کابینہ کمیٹی کو بھجوائیں گے۔چیئرمین پی ٹی اے عامر عظیم باجوہ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ سوشل میڈیا رولز کابینہ سے نوٹیفائی نہیں ہوئے۔رولز نوٹیفائی ہونے کے بعد تمام سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں دفاترکھولنے کی پابند ہو ں گی۔سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنا نمائندہ بھی پاکستان میں نامزد کرنا ہوگا۔سوشل میڈیا رولز نوٹیفائی ہونے سے سوشل میڈیا سے متعلق بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے ،سوشل میڈیا کو ہینڈل کرنا پوری دنیا کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔سائبر کرائم کو انویسٹی گیٹ کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔فیک اکاؤنٹ بنانے پر اگر متاثرہ شخص خود سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو رپورٹ کرتا ہے تو اس کا اچھا رسپانس آتا ہے۔فیک اکاؤنٹ پر پی ٹی اے کو بھی رپورٹ کیا جاسکتا ہے۔ناز بلوچ نے کہاکہ اگر ٹوئٹر اور فیس بک پاکستان میں دفاتر نہیں کھولتے تو کیا انھیں بند کر دیا جائے گا۔ایک شخص بیرون ملک سے آتا ہے اور اسے پورے ڈیٹا بیس تک رسائی دے دی جاتی ہے۔ تانیہ ایدروس پاکستان آئیں اور چلی گئیں اب معلوم ہوا کہ وہ پاکستانی نیشنل نہیں۔AW
#/S