کراچی (ویب ڈیسک )
پاکستان میں انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ہی سائبر کرائمز میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ چار برسوں کے دوران سائبر کرائمز میں 12 گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ملک میں سائبر کرائم کے حوالے سے قانون سازی کے بعد ہر سال جرائم کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ان جرائم میں جنسی ہراسیت، مالیاتی فراڈ، ڈیٹا چوری، سوشل میڈیا پر شناخت کی چوری وغیرہ، بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز بنانے اور پھیلانے کے مقدمات شامل ہیں۔
دستاویزات کے مطابق 2016 میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے نفاذ کے بعد ملک بھر سے ایف آئی اے کو 9 ہزار شکایات موصول ہوئیں جن کی بنیاد پر 47 مقدمات درج کیے گئے۔
تاہم 2019 میں درج ہونے والے مقدمات کی تعداد 12 گنا اضافے کے ساتھ 577 ہو گئی جبکہ رواں سال ایف آئی اے کو موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 56 ہزار سے بھی بڑھ گئی ہے۔
اسی طرح 2018 میں درج مقدمات کی تعداد 465 تھی جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنا تھی جبکہ موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 9 ہزار سے زائد تھی۔ سال 2017 میں پیکا کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی تعداد 207 تھی۔ 2019میں سائبر کرائمز میں ملوث 620 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جبکہ اس سے گزشتہ برس 443 افراد پیکا کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں گرفتار کیے گئے۔
واضح رہے کہ سائبر کرائمز کے خاتمے اور عوام میں اس حوالے سے آگاہی کے لیے ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے عوام میں ان جرائم کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ہدایت نامے بھی جاری کیے جاتے ہیں جو کہ ایف آئی اے کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔