فیڈرل بورڈآف ریونیو(ایف بی آر) اور کاروباری لوگوں میں گٹھ جوڑ توڑنے اور ادارے کی کارکردگی میں بہتری لانے کیلیے اس کے کم وبیش ڈھائی ہزار اعلیٰ افسروں اور ملازمین کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایمنسٹی اسکیم کی کامیابی کے بعد ایف بی آر کی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ رواں مالی سال 2019-20 ء کے دوران 5.550 ٹریلین روپے کا ریونیو ہدف حاصل کرنے کیلیے کی جارہی ہے۔
اس اکھاڑ پچھاڑ کے دوران ادارے میں موجود داغدار لوگوں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا جائیگا۔گریڈ 14سے22 کے تبادلوں کا مقصد ان لوگوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانا ہے جو ابھی تک اس دائرے سے باہر ہیں۔ایمنسٹی اسکیم کے تحت تقریباً ایک لاکھ مزید افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے ۔پی ٹی آئی کی ایمنسٹی اسکیم اور ان لیگ کی اسکیم میں یہی نمایاں فرق ہے۔
ایکسپریس ٹریبون کو ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم اگلے ہفتے گریڈ 21 اور22 کے افسروں کا اجلاس بلا رہے ہیں ۔اس کے بعد اعلیٰ سطحی تبادلے شروع ہوجائیں گے۔ایف بی آر کے انٹیلی جنس ونگ کے افسروں کو بھی ان کے عہدوں سے ہٹایا جارہا ہے ۔ان لینڈ ریونیوکے تقریباً 2 ہزار ملازمین کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائیگا ۔اسی طرح کسٹم ونگ کے 500 افسروں واہلکاروں کو بھی نئے ذمے داریاں سونپی جائیں گی۔
ایف بی آر میں ملازمین کو اس وقت کل تعداد 21 ہزارسے زائد ہے ۔ڈھائی ہزار ملازمین کے تبادلوں کا مقصد ٹیکس چوری کو روکنا ،سرحدوں اور بندرگاہوں کے ذریعے اسمگلنگ پر قابو پانا اور لوگوں کی حقیقی آمدن کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے افسروں اور کاروباری لوگوں میں گٹھ جوڑ توڑنے کے حوالے سے تبادلوں کی جو پالیسی بنائی ہے اس میں دیکھا جائیگا کہ کوئی افسر کتنے عرصہ سے ایک پوسٹ پر تعینات ہے،کسی افسریا ملازم کے بارے میں کتنی شکایات ہیں۔ا س کے علاوہ کسی افسر یا ملازم کی کس عہدے پر تعیناتی کتنی زیادہ موثر رہیگی۔جن لوگوں کے حال ہی میں تبادلے ہوئے ہیں انھیں نہیں چھیڑا جائیگا ماسوائے ان کے جن کے بارے میں شکایات ہونگی۔
ایف بی آر میں2015ء سے اب تک 200 کے قریب کرپٹ افسروں کے بارے میں شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔دوماہ قبل گریڈ 20 اور21 کے افسروں کو ہٹانے کے سلسلے میں وزیراعظم سے منظوری کیلئے ایک سمری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیجی گئی تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے یہ کہ کر سمری واپس بھجوا دی تھی کہ اس ضمن میں نئی انکوائری کی ضرورت ہے۔
نئے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ایف بی آر کے افسروں پر پرائیویٹ کنسلٹنسی کے حوالے سے پہلے ہی پابندی لگا دی ہے ۔ اب ادارے میں افسروں وملازمین کے تبادلے اس امید سے کیے جارہے ہیں کہ نئی ورک فورس ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائے گی جو ابھی تک اس دائرے سے باہر ہیں۔اب تک 21 لاکھ لوگوں نے اپنی سالانہ انکم ٹیکس ریٹرنز جمع کروائی ہیں حالانکہ پانچ کروڑ 30 لاکھ لوگ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایف بی آر ان لوگوں کے طرز زندگی کے بارے میں جانتے بوجھتے بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر میں بعض اہم ممبران کی تبدیلی کے باوجود ان کی تعداد 13 سے کم کرکے 8 کی جارہی ہے۔ممبران لینڈ ریونیو آپریشن مس سیما شکیل کو اس لیے عہدے سے ہٹایا جارہا ہے کیونکہ وہ گزشتہ سال کے دوران اپنا 4.4 ٹریلین ریونیوکا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ایف بی آر کو اپنی تاریخ میں پہلی بارریونیو ہدف کے 576 ارب روپے کے ریکارڈ شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ذرائع کے مطابق ممبر ایف اے ٹی ای ، ممبر سٹریٹجک پلاننگ ریفارم اینڈ سٹیٹسٹکس،ممبر ہیومن ریسورسز، ممبر انٹرنل آڈٹ اورممبر لیگل اینڈ اکاؤنٹنگ کسٹمزکے عہدے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ پرائیویٹ سکیٹر سے چیئرمین کی تعیناتی کے بعد حکومت کم ازکم دو ممبران کو ایف بی آر سے ہیڈکوارٹرز لارہی ہے ۔ممبر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور چیف انفارمیشن آفیسر کو پرائیویٹ سیکٹر سے لایا جاسکتا ہے۔
چیف انفارمیشن آفیسر کو ممبر فیسیلیٹیشن اینڈ ٹیکس پیئر ایجوکیشن(ایف اے ٹی ای ) کی جگہ لایا جائیگا کیونکہ یہ عہدہ باقی چار عہدوں کے ساتھ ختم کیا جارہا ہے ۔ایمنسٹی سکیم کی کامیابی نے چیئرمین ایف بی آر کے عہدے پر شبر زیدی کی تعیناتی کے ناقدین کے منہ بندکردیئے ہیں ۔