بھارت کی جوہری پالیسی میں تبدیلی ناقابل تلافی غلطی ہوگی ‘بین الاقوامی میڈیا اور اسکالرز کی رائے
نئی دہلی کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لینے کے بعد پاکستان بھارت میں کشیدگی
میں نے سنا ہے کہ بھارت نے جوہری اصول کو تبدیل کرنے کے لیے کئی تبدیلیاں کی ہیں۔پروفیسر وپن نارنگ
لندن(کے پی آئی)’بین الاقوامی میڈیا اور اسکالرز نے بھارت کی جوہری پالیسی میں تبدیلی کو ناقابل تلافی غلطی قرار دے دیا ہے ۔نیو یارک کے ایسٹ ویسٹ انسٹیٹیوٹ کے فرانز اسٹیفن گیڈی نے بھارت کی جوہری پالیسی میں حالیہ تبدیلی کے بیان پر سوال کیا کہ کیا یہ پہلی بار استعمال سے انکار سے تبدیل ہوکر پہلی بار استعمال ہوگئی ہے؟۔ برطانوی آن لائن اخبار دی انڈیپنڈنٹ نے نشاندہی کی کہ بھارت کے دفاعی وزیر نے ملک جوہری ہتھیار کے پہلی مرتبہ استعمال سے انکار کا وعدہ اب حالات پر منحصر ہونے کا بیان دے کر پاکستان کو دبے الفاظ میں دھمکی دی ہے۔16 اگست کو بھارتی وزیر دفاع رجناتھ سنگھ نے پوخران میں بھارت کی جوہری ٹیسٹ سائٹ کے دورے کے دوران کہا تھا کہ ‘بھارت جوہری ہتھیار کے پہلی مرتبہ استعمال سے انکار کی پالیسی پر عمل پیرا تھا تاہم مستقبل میں کیا ہوگا یہ صورتحال پر منحصر ہے’۔نیوز ویب سائٹ دی ڈپلومیٹ پر شائع آرٹیکل میں صحافی انکیت پانڈا نے کہا کہ ‘بین الاقوامی میڈیا اور اسکالرز نے ان کے بیان کو بھارت کی جوہری پالیسی میں تبدیلی قرار دیتے ہوئے اسے ناقابل تلافی غلطی قرار دیا’۔دی انڈیپنڈنٹ کا کہنا تھا کہ ‘یہ تبدیلی بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی میں اضافے کے پیش نظر سامنے آئی جو نئی دہلی کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لینے کے بعد دیکھی گئی تھی۔میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سیکیورٹی اسٹڈیز کے پروفیسر وپن نارنگ نے اس بیان کو پالیسی کی جگہ سیاسی بیان قرار دینے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘کوئی غلطی نہ کریں، یہ اب تک کے سب سے اعلی سطح سے آیا بیان ہے جو وزیر دفاع کے خود منہ سے نکلا ہے، بھارت ہمیشہ پہلی مرتبہ استعمال سے انکار کی پالیسی پر قائم نہیں رہے گا۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے یہ سنا ہے کہ بھارت نے اپنی جوہری اصول کو تبدیل کرنے کے لیے کئی تبدیلیاں کی ہیں جس کی وجہ سے رجناتھ سنگھ کا بیان نہایت اہم ہے’۔انہوں نے بھارتی نیوز ویب سائٹ دی وائر پر شائع ہونے والے آرٹیکل کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘اگر بھارت پہلی مرتبہ انکار سے تبدیل ہوگیا ہے تو اسے اپنے جوہری اسٹرکچر، خطرے کی سطح، تعیناتی اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کے انتظامات میں ضروری تبدیلیاں کرنی ہوں گی’۔آرٹیکل میں نشاندہی کی گئی کہ اس طرح کی تبدیلی میں ڈلیوری نظام اور وارہیڈز میں اضافے بھی شامل ہیں۔دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی انتہا پسند، ہندو بالادستی کی حامی مودی حکومت کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار ہونے پر دنیا کو ان کی سلامتی اور حفاظت پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا پر پڑ سکتے ہیں۔نیو یارک کی سرکاری یونیورسٹی البانی کے شعبہ پولیٹیکل سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹوفر کلاری اور وپن نارنگ نے دی ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں کہا کہ ‘پہلی مرتبہ استعمال سے انکار کی جوہری پالیسی کا ابھی خاتمہ تو نہیں تاہم اس پر اعتماد کھو گیا ہے’۔اس آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے کرسٹوفر کلاری کا کہنا تھا کہ ‘اس سے قبل 2010 میں بھارت کے سابق قومی سلامتی کے مشیر شو شنکر مینن نے پہلی مرتبہ استعمال سے انکار کی پالیسی سے انحراف کرنے کا بیان دیا تھا’۔دی واشنگٹن پوسٹ کے سابق بھارتی نمائندے نے ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ بی جے پی کے رہنما منوہر پاریکر، جن کا انتقال مارچ کے مہینے میں ہوا، نے پہلی مرتبہ بھارت کی جوہری پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت نے 2017 میں ٹھنک ٹینکس اور اسکالرز سے اس بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے کا کہا تھا’۔چند ٹوئٹر صارفین نے انڈیا ٹوڈے کا آرٹیکل بھی شیئر کیا جس میں لکھا تھا کہ ‘ٹیم مودی کا نیوکلیئر بم، حکومت نے بھارت کی بنائی گئی پہلی مرتبہ استعمال سے انکار کی جوہری حملے کی پالیسی میں بڑی تبدیلی کردی’