ان مشتبہ اکاونٹس کی چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ یہ اکاونٹس منظم اور غیر مصدقہ رویے کے مرتکب ہوئے ،فیس بک کا دعویٰ
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
دنیا میں سماجی رابطوں کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اپنے پلیٹ فارم پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے 103 ویب پیجز، 78 گروپس، 453 انفرادی اکاونٹس اور 107 انسٹا گرام اکاونٹس پر مشتمل ایک ایسے ‘نیٹ ورک’ کو معطل کر دیا ہے جو مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث تھا۔فیس بک کے مطابق انہوں نے ان مشتبہ اکاونٹس کی چھان بین کی تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ اکاونٹس منظم اور غیر مصدقہ رویے کے مرتکب ہوئے ہیں۔فیس بک نے اپنی اس رپورٹ کو کووآرڈینیٹڈ ان اتھینٹک بیہیوئر کے عنوان سے شائع کیا ہے یعنی ایک ایسی رپورٹ جو ان اکاونٹس کی نشاندھی کرتی ہے جو بڑے منظم طریقے سے چلائے جا رہے ہیں اور عوامی بحث و مباحثے کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔فیس بک نے ان اکاونٹس اور صفحات سے متعلق معلومات امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیٹ آبزرویٹری گروپ (ایس آئی او) کو فراہم کیں تھیں۔اس گروپ کی جانب سے کی گئی تحقیق میں سب سے اہم قدر مشترک یہ سامنے آئی کہ معطل کیے جانے والے اکاونٹس فیس بک کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ‘منظم طریقے سے بڑے پیمانے پر ایسے اکاونٹس کو رپورٹ کر رہے تھے جو پاکستان، اسلام، پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج کے خلاف مواد شائع کرتے تھے۔’ایس آئی او کی جانب سے کی گئی تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ معطل کیے جانے والے اکاونٹس احمدی برادری سے منسلک اکاونٹس کو بھی معطل کرنے کے لیے رپورٹ کرتے اور اس نیٹ ورک کے پیجز اور اکاونٹس پر شائع مواد پاکستانی فوج، پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی تعریف سے بھرے ہوئے تھے۔واضح رہے کہ گذشتہ سال بھی فیس بک نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 100 سے زیادہ ایسے اکاونٹس معطل کیے تھے ،ایس آئی او کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ معطل کیے جانے والے صفحات اور اکاونٹس کا نیٹ ورک فیس بک پر بڑے پیمانے پر انتہائی منظم طریقے سے ایسے اکانٹس اور پیجز کی شکایت کرتے ہوئے انھیں رپورٹ کر رہا تھا جو اسلام مخالف اور پاکستان مخالف تھے۔سٹینفورڈ انٹرنیٹ آبزرویٹری (ایس آئی او) کی جانب سے کی گئی تحقیق کی مرکزی محقق اور مصنف، شیلبی گروسمین نے برطانوی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس تحقیق میں جو سب سے اہم بات سامنے آئی ہے وہ اس نیٹ ورک کی تیزی اور قابلیت ہے جس نے اتنے منظم طریقے سے اکاونٹس کو رپورٹ کیا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹرولنگ کرنے والے صفحات، مثلا وائس آف اسلام نامی ایک پیج، صارفین کو قائل کرتا تھا کہ وہ کیسے زیادہ سے زیادہ اکاونٹس کو رپورٹ کریں اور صارفین کو ایسا کرنے کا طریقہ کار بھی بتایا جاتا تھا۔ایس آئی او کے مطابق اس نیٹ ورک میں ایسے دعوے دیکھے گئے ہیں کہ اس کی شکایت کے بعد فیس بک نے دو سو سے زیادہ اکاونٹس معطل کیے۔ البتہ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ اس نیٹ ورک کی شکایات ہی فیس بک کی جانب سے ان دو سو سے زیادہ اکاونٹس کے خلاف لیے گئے اقدامات کی وجہ بنی تھیں یا نہیں۔ایس آئی او نے اپنی تحقیق میں یہ بات بھی پیش کی کہ یہ نیٹ ورک شکایات درج کرنے کا ایک خودکار طریقہ بھی استعمال کر رہا تھا تاکہ اس کی مدد سے بڑے پیمانے پر کئی صفحات اور گروپس کی شکایت کی جائے اور انھیں رپورٹ کر دیا جائے۔ایس آئی او کے مطابق آٹو رپورٹر نامی یہ طریقہ کار بنانے والے صارف نے باقاعدہ طور پر یہ لکھا ہے کہ اس طریقہ کار کو بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ان اکانٹس کو رپورٹ کیا جائے جو اسلام مخالف، پاکستان مخالف اور خطرے کے باعث بن سکتے ہوں۔ساتھ ساتھ اس نیٹ ورک نے تربیتی مواد بھی تیار کر کے شائع کیا جس کی مدد سے صارفین کو بتایا جاتا ہے کہ کس طرح سے وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اکاونٹس کو رپورٹ کر سکیں۔شیلبی گروسمین نے اس حوالے سے بتایا کہ اس نیٹ ورک نے یو ٹیوب پر تربیتی مواد کی ویڈیوز تیار کی ہیں تاکہ صارفین کو بتایا جا سکے کے کیسے اکاونٹس کو رپورٹ کیا جائے۔ میرے خیال میں اس عمل کو تیز رفتار بنانے کے طریقے پہلے نہیں آزمائے گئے۔ایس آئی او نے اپنی تحقیق میں ذکر کیا کہ فیس بک کی جانب سے معطل کیے جانے والے پورے نیٹ ورک میں قدر مشترک بات یہ تھی کہ اس میں شامل تمام صفحات اور اکاونٹس میں قوم پرست مواد کا پرچار کیا جاتا تھا اس کے علاوہ دوسری بات یہ سامنے آئی کے نیٹ ورک کے اکاونٹس حکومتی جماعت پی ٹی آئی کی واضح حمایت اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی مخالفت کرتے نظر آئے۔جب شیلبی گروسمین سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی ٹیم نے یہ کھوج لگانے کی کوشش کی کہ اس نیٹ ورک کے پیچھے کون ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ معلوم تو نہیں کر سکے تاہم ان کا اپنا اندازہ یہ ہے کہ جیسا مواد تحقیق میں دیکھنے میں ملا وہ اس معیار کا نہیں تھا جیسا گذشتہ سال معطل کیے جانے والے ان اکاونٹس کا تھا،ایس آئی او کی جانب سے تحقیق میں لکھا گیا ہے کہ اس نیٹ ورک میں شامل اکاونٹس انڈیا مخالف مواد بھی شائع کرتے اور خالصتان تحریک کی حمایت میں پوسٹس کرتے نظر آئے۔ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس نیٹ ورک سے بھارتیہ جنتا پارٹی، انڈین وزیر اعظم نریندر مودی، انڈین فوج کے خلاف مواد شائع کیا جاتا رہا ہے۔ایس آئی او نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ وہ فیس بک کی جانب سے دی گئی معلومات کی مدد سے یہ نہیں جان سکے کہ اس نیٹ ورک کو چلانے والے لوگ کون ہیں اور کس سے منسلک ہیں۔شیلبی گروسمین نے مزید کہا کہ اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو شکایت درج کرانے کے نظام کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے کیونکہ مواد کی جانچ کرنا نہایت مشکل کام ہے اور اس قسم کی نیٹ ورک مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی ٹیم اس پر مزید کام تو نہیں کرے گی لیکن وہ توقع کرتی ہیں کہ ایس آئی او کی رپورٹ میں شامل مواد کی مدد سے پاکستانی محققین اور صحافی اس پر مزید کام کریں گے۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے اس رپورٹ کے حوالے سے فیس بک سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی اپنی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ پورا نیٹ ورک پاکستان سے چلایا جا رہا ہے لیکن ان میں سے چند اکانٹ اپنی شناخت انڈین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اس سوال پر کہ یہ تحقیق صرف چند ملکوں تک محدود کیوں ہے، فیس بک کی جانب سے کہا گیا کہ ان کی ٹیم مسلسل اپنے پلیٹ فارم پر منظم طریقے سے غیر مصدقہ رویے کی شناخت کرنے کی کوششیں کر رہی ہوتی ہے اور یہ کوششیں کسی ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں ہیں۔فیس بک پر شکایت درج کرانے کے نظام کے بارے میں سوال پر پلیٹ فارم کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اپنے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اگلے سال سے مواد کی نگرانی کے نظام کی جانچ ایک خود مختار ادارے کو دیں گے جو فیس بک کی تحقیق کا آزادانہ جائزہ لے گا۔فیس بک نے تسلیم کیا کہ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں کہ درج شکایات پر اقدامات لینے سے قبل پوری جانچ کی جائے لیکن غلطیاں ہو جاتی ہیں اور اسی لیے وہ اس نظام کو مسلسل بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔فیس بک نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ وہ درج کرائی گئی ہر رپورٹ کا بغور جائزہ لیتے ہیں اور کسی اکاونٹ یا پیج کے بارے میں ایک شکایت ملے یا متعدد شکایات ملیں، اس سے ان کا طریقہ کار متاثر نہیں ہوتا۔واضح رہے کہ فیس بک کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں پاکستان کے علاوہ امریکہ اور روس میں قائم نیٹ ورکس کا جائزہ لیا گیا اور اس کے بعد مجموعی طور پر فیس بک پر 521 اکاونٹ، 137 فیس بک پیجز، 78 گروپس اور 72 انسٹا گرام اکاونٹس کو معطل کیا گیا۔